زید کی اپنی زندگی میں یہ خواہش تھی کہ وہ اپنے تین بیٹوں اور ایک بیٹی کے درمیان برابری کے ساتھ اپنی جائیداد تقسیم کرے، زید تقسیم سے پہلے ہی انتقال کر گیا، اب جائیداد کی تقسیم کیسے ہو گی؟جب کہ ورثاء بھی اس برابری کی تقسیم پر راضی ہیں، مرحوم کی دو بیوہ ہیں،اور مرحوم کے والدین مرحوم سے پہلےہی انتقال کر چکے ہیں،زید کی وفات کے بعد ورثاء اس کی جائیداد کو ابھی تقسیم نہیں کرنا چاہتے ، زید کے انتقال کو تقریباً پانچ سال ہو گئے ہیں،کیا ورثاء کے لیے جائز ہے کہ جائیداد ابھی تقسیم نہ کریں؟ جیسے کہ وہ چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کی تمام متروکہ جائیداد میں اس کے تمام شرعی ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہےاور مرحوم کی کل جائیداد اس کے تمام ورثاء کے درمیان ( شرکتِ ملک کے طور پر ) مشترک ہوجاتی ہے، پھر اس مشترک جائیداد کو تقسیم کرنے کے دو طریقے ہیں : - (1) تقسیمِ قضا، (2) تقسیمِ رضا۔
”تقسیمِ قضا “ یہ کہ وہ تما م جائیداد مرحوم کے تمام ورثاء میں شریعت کے قانون کے مطابق تقسیم کی جائے یعنی" للذکر مثل حظ الانثیین "(بیٹے کو بیٹی کی بنسبت دگنا حصہ ملنا) وغیرہ، اور ”تقسیمِ رضا“ یہ کہ اگر مرحوم کے تمام ورثاء عاقل، بالغ ہوں ، اور باہمی رضامندی سے کوئی تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اس کی بھی اجازت ہے، اور اگر مرحوم کے تمام ورثاء عاقل، بالغ نہیں ہیں بلکہ ان میں کوئی بچہ یا مجنون ہے، تو پھر شریعت کے قانون کے مطابق میراث تقسیم کرنا ضروری ہے، اس لیے کہ بچہ اور مجنون کی اجازت ورضا معتبر نہیں ہے۔
2) چونکہ میت کے تمام ترکہ میں اس کے تمام شرعی ورثا کا حصہ ہوتا ہے،اور جب تک میراث تقسیم نہ کی جائے تب تک تمام ورثا اپنے حصص کے مطابق اس کے مالک ہیں ، لہذا تمام ورثاء اگر فی الحال میراث تقسیم نہیں کرنا چاہتے تو ایسی صورت میں اس مال سے نفع اٹھانے کے لیے باہمی رضامندی سےکوئی معقول ترتیب طے کرسکتے ہیں ، البتہ اگر کوئی شریک تقسیم کا مطالبہ کرے کہ اس کو اس کا حصہ الگ کرکے دیا جائےتومیراث میں سے اس کا حصہ ادا کرنا شرعا ضروری ہو جاتا ہے۔
تاہم عمومًا میراث کو جلدی تقسیم نہ کرنے کی وجہ سے باہمی اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں، اس لیے میراث جلدی تقسیم کردینا ہی بہتر ہوتا ہے۔
شرح المجلہ میں ہے؛
"تنقسم کل من قسمةالجمع وقسمةالتفریق الي نوعین ، قسمةالرضا وقسمةالقضا……. قسمةالرضا القسمةالتي تجري بین المتقاسمین في الملك المشترك بالتراضي او برضي الکل عند القاضي."
(4/58، الباب الثانی فی بیان القسمۃ ، ط؛ رشیدیہ)
بدائع الصنائع میں ہے؛
"(ومنها) الرضا في أحد نوعي القسمة، وهو رضا الشركاء فيما يقسمونه بأنفسهم إذا كانوا من أهل الرضا، أو رضا من يقوم مقامهم، إذا لم يكونوا من أهل الرضا فإن لم يوجد لا يصح، حتى لو كان في الورثة صغير لا وصي له، أو كبير غائب، فاقتسموا؛ فالقسمة باطلة؛ لما ذكرنا أن القسمة فيها معنى البيع، وقسمة الرضا أشبه بالبيع، ثم لا يملكون البيع إلا بالتراضي، فكذا القسمة، إلا إذا لم يكونوا من أهل الرضا كالصبيان والمجانين فيقسم الولي أو الوصي إذا كان في القسمة منفعة لهم؛ لأنهما يملكان البيع فيملكان القسمة."
(7 / 22، کتاب القسمۃ، ط؛ سعید)
الفقہ الإسلامي وأدلتہ" میں ہے؛
"قال الحنفية : تلزم قسمة التراضي وقسمة التقاضي بعد تمامها، فلا يجوز الرجوع عنها إذا تمت."
(5/683، احکام القسمۃ، ط؛ دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول (وإن تضرر الكل لم يقسم إلا برضاهم) لئلا يعود على موضوعه بالنقض.
في المجتبى: حانوت لهما يعملان فيه طلب أحدهما القسمة إن أمكن لكل أن يعمل فيه بعد القسمة ما كان يعمل فيه قبلها قسم و إلا لا."
(ج نمبر ۶، ص نمبر ۲۶۰، ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144511101580
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن