بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تشہد کی حالت میں بیٹھنے سے معذور شخص کی نماز کا حکم


سوال

میں گھٹنوں کے درد کی وجہ سے التحیات  کے لیے بیٹھ نہیں سکتا، بیٹھنے کی صورت میں شدید درد ہوتا ہے ، سجدہ کرنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی،  مگر سجدہ کے بعد دوبارہ کھڑا ہونے سے سانس چڑھ جاتا ہے۔ کیا میں کرسی پر بیٹھ کر نماز ایسے ادا کرسکتا ہوں کہ قیام کھڑے ہو کر کروں ؟  رکوع صحیح طریقہ سے کروں، مگر سجدہ اشارے سےکروں؟ ایسی صورت میں کرسی کس طرح رکھنا ہوگی ؟ اور صف سیدھی رکھنے کا طریقہ کیا ہو گا ؟

جواب

سائل کے بیان کے مطابق  اسے سجدہ کرنے میں کسی قسم کی تکلیف کا سامنا چوں کہ نہیں کرنا پڑتا، تاہم سجدے سے کھڑے ہونے میں شدید تکلیف اٹھانی پڑتی ہے ،اسی طرح قعدہ میں بیٹھنے پر بھی وہ  قادر نہیں ، لہذا صورتِ مسئولہ میں  سائل اگر زمین پر چار زانوں بیٹھنے کی قدرت رکھتا ہو ، اور اس طرح بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی صورت میں وہ  باقاعدہ سجدہ کرنے پر بھی  قادر ہو، تو اس کے لیے ابتداء سے ہی بیٹھ کر نماز ادا کرنا ضروری ہو گا، کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرنےکی اجازت نہیں ہوگی ۔

البتہ اگر سائل زمین پر چارزانوں بیٹھنے پر بھی قادر نہ ہو ، یا چار زانوں تو بیٹھ سکتا  ہو ،مگر زمین پر سجدہ کرنے کی اسے قدرت نہ ہو ، تو اس صورت میں سائل کی نماز اشاروں والی نماز شمار ہوگی، اور سائل کے لیے کرسی یا زمین پر جس بھی ہیئت میں بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی اجازت ہو گی ، تاہم زمین پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا کرسی پر نماز اداکرنے سے افضل ہو گا، نیز اس صورت میں سائل کے لیے ابتداء سے ہی بیٹھ کر نماز اداکرنے کی اجازت ہوگی ، قیام و رکوع کھڑے ہوکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے :

"إذا عجز المريض عن القيام صلى قاعدا يركع ويسجد، هكذا في الهداية وأصح الأقاويل في تفسير العجز أن يلحقه بالقيام ضرر وعليه الفتوى، كذا في معراج الدراية، وكذلك إذا خاف زيادة المرض أو إبطاء البرء بالقيام أو دوران الرأس، كذا في التبيين أو يجد وجعا لذلك فإن لحقه نوع مشقة لم يجز ترك ذلك القيام، كذا في الكافي."

(‌‌كتاب الصلاة، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج :1، ص:136، ط: المطبعة الكبرى الأميرية ببولاق مصر)

بدائع الصنائع میں ہے :

"روي عن أبي حنيفة أنه يقعد كيف شاء من غير كراهة إن شاء محتبيا، وإن شاء متربعا، وإن شاء على ركبتيه كما في التشهد. وروي عن أبي يوسف أنه إذا افتتح تربع، فإذا أراد أن يركع فرش رجله اليسرى وجلس عليها.وروي عنه أنه يتربع على حاله، وإنما ينقض ذلك إذا أراد السجدة وقال زفر يفترش رجله اليسرى في جميع صلاته والصحيح ما روي عن أبي حنيفة؛ لأن عذر المرض أسقط عنه الأركان فلأن يسقط عنه الهيئات أولى وإن كان قادرا على القيام دون الركوع والسجود يصلي قاعدا بالإيماء."

(کتاب الصلاۃ، فصل أرکان الصلاۃ، ج:1، ص106، ط: مطبعة شركة المطبوعات العلمية بمصر)

الدرالمختار و حاشیۃابن عابدین میں ہے :

"(وإن تعذرا) ليس تعذرهما شرطا بل تعذر السجود كاف (لا القيام أومأ) بالهمز (قاعدا) وهو أفضل من الإيماء قائما لقربه من الأرض (ويجعل سجوده أخفض من ركوعه) لزوما (ولا يرفع إلى وجهه شيئا يسجد عليه) فإنه يكره تحريما (فإن فعل) بالبناء للمجهول ذكره العيني (وهو يخفض برأسه لسجوده أكثر من ركوعه صح) على أنه إيماء لا سجود إلا أن يجد قوة الأرض(وإلا) يخفض (لا) يصح لعدم الإيماء."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج:2، ص:97، ط: سعید)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144608101124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں