بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

تشہد کی جگہ سورہ فاتحہ پڑھ لی تو کیا حکم ہے؟


سوال

 اگر کوئی  شخص تشہد کی جگہ  سورہ فاتحہ پڑھ لے اور تشہد نہ پڑھے اور سجدہ سہو بھی نہ کریں۔ تو کیا نماز ہو جائے گی یا  نہیں ؟ 

جواب

سورہ فاتحہ کا پڑھنا قراءت کہلاتا ہے، اور  قعدہ اولی یا اخیرہ، قراء ت کا محل نہیں ہے؛  بلکہ وہ التحیات (تشہد) کا محل ہے، لہٰذا اگر کسی نے قعدہ اولی یا اخیرہ میں التحیات کی جگہ  سورہ فاتحہ  پڑھ لی  تو اس پر  سجدہ سہو واجب ہوگا، اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو  اسی نماز کے وقت کے اندر  نماز دہرانا لازم ہوگا، وقت  گزرجانے تك  اعادہ نہیں كيا تو نماز  کراہتِ  تحریمی  کے ساتھ ادا شمار ہوگی، اور  اعادہ واجب نہیں رہے گا، تاہم اعادہ افضل ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) التشهد فإذا تركه في القعدة الأولى أو الأخيرة وجب عليه سجود السهو وكذا إذا ترك بعضه، كذا في التبيين سواء كان في الفرض أو النفل، كذا في البحر الرائق."

(الباب الثاني عشر في سجود السهو، ١ /  ١٢٧، ط: دار الفكر) 

الاختیار میں ہے:

"( وإن قرأ فی الرکوع أوالقعود سجد للسھو، وإن تشھد فی القیام والرکوع لا یسجد ) وھذا لأن القعود والرکوع لیسا محل القراء ة فکان تغییرا فیجب، والقیام محل الثناء فلا تغییر فلا یجب۔"

( کتاب الصلاة، باب سجود السھو،ج:1، ص: 249، دار الكتب العلمية)

حاشية الطحطاوي  میں ہے:

"وإعادتها بتركه عمداً" أي ما دام الوقت باقياً وكذا في السهو إن لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان وكراهة التحريم ويكون فاسقاً آثماً، وكذا الحكم في كل صلاة أديت مع كراهة التحريم، والمختار أن المعادة لترك واجب نفل جابر، والفرض سقط بالأولى؛ لأن الفرض لايتكرر كما في الدر وغيره، ويندب إعادتها لترك السنة". 

(كتاب الصلاة، ‌‌فصل في بيان واجب الصلاة، ص: 247، دار الكتب العلمية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144510100606

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں