ہمارا کام لنڈے کی ٹی شرٹس بیچنے کا ہے،ان ٹی شرٹس کی قیمت مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر کم یا زیادہ ہوتی ہیں:
1۔ کمپنی کا ٹیگ، جس میں made in USA لکھاہوتا ہے،اس میں یورپ اور USAکو زیادہ پسند کیا جاتا ہےاور اس کا ریٹ بھی زیادہ ہوتا ہے، تھائی لینڈ ،پاکستان وغیرہ ایشیاء کے ممالک کو پسند نہیں کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے اس کا ریٹ بھی کم ہوتاہے۔
2۔سنگل سلائی کا ریٹ زیادہ ہوتا ہےاور ڈبل سلائی کا ریٹ کم ہوتا ہے۔
3۔ٹی شرٹس اگر لیڈیز اسٹائل ہو یا بچہ سائز ہو اور اس کا گلا زیادہ کھلا ہو تواس کی قیمت کم ہوتی ہے۔
4۔کپڑے کی نوعیت سے بھی ریٹ میں فرق آتاہے۔
5۔ٹی شرٹ کے آگے کمپنی کانام / لوگو پرنٹ کی صورت میں ہوتو ریٹ زیادہ ہوتا ہے اور اگر نہ ہوتو ریٹ کم ہوتا ہے۔
6۔ اس کمپنی کے نام کے ساتھ تصویر ہو ،چاہے وہ جاندار کی تصویر ہو یا بے جان کی ، اس سے تصویر کی وجہ سے ریٹ بڑھ جاتا ہے۔
7۔ کمپنی کے نام کے نیچے اس شرٹ کے بننے کی تاریخ ہوتی ہے، اس کے درج ہونے سے بھی ریٹ زیادہ ہوتاہے۔
البتہ ان میں سے اہم چیز جس کی وجہ سے ریٹ میں اتار چڑھاؤ ہو تا ہے، وہ سلائی ،کمپنی کا ٹیگ اور تاریخ ہے، اگر یہ چيزيں ہوں تو بقیہ چيزوں سے ريٹ ميں مزيداضافہ نہيں ہوتاہے۔
ہم ان ٹی شرٹس کا مکس بنڈل بناتے ہیں،جس میں برانڈڈ، پرنٹڈ ،نان پرنٹڈ ،تصویر والا ،بغیر تصویر والا وغیرہ سب ہوتا ہے،اور اس پورے بنڈل کا سودا کرتے ہیں،کیا اس طرح پورے بنڈل کابیچنا درست ہے؟
صورتِ مسئولہ میں برانڈڈ، پرنٹڈ، نان پرنٹڈ، سنگل سلائی وغیرہ کا مکس بنڈل بنا کر اسے بنڈل کی صورت میں بیچنا جائز ہے، بشرط یہ کہ جاندار کی تصویر والی شرٹ میں جاندار کی تصویر کی بنیاد پر خرید و فروخت نہ کی جائے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"قال ابن حجر: وشملت الصورة ما في الدراهم المجلوبة من بلاد الكفر فمن عنده شيء منها منع دخول الملائكة وإن حل له إمساكها، بل ولو حملها ولو في عمامة ; لأن القصد ذاتها لا الصورة التي حمل عليها."
(كتاب الطهارة، باب مخالطة الجنب، ج: 2، ص: 444، رقم: 463، ط: المكتب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"فإنه قد يثبت من الحكم تبعا ما لا يثبت مقصودا كالشرب في البيع والبناء في الوقف، وهذا قول أبي يوسف ومحمد معه؛ لأنه أجازه إفراد بعض المنقول بالوقف فالتبع أولى."
(كتاب الوقف، ج: 4، ص: 361، ط: سعيد)
جواہر الفقہ میں ہے:
’’بیع وشراء میں اگر تصاویر خود مقصود نہ ہوں، بلکہ دوسری چیزوں کے تابع ہوکر آجائیں، جیسے اکثر کپڑوں میں مورتی لگی ہوتی ہیں یا برتنوں اور دوسری مصنوعاتِ جدیدہ میں اس کا رواج عام ہے، تو اس کی خرید و فروخت جائز ہے۔‘‘
(تصوير كے شرعی احكام، ج: 7، ص: 263، ط: مکتبۃ دار العلوم كراچی)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144602100239
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن