کیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین کہ عام طور پر دیواروں پر تصویری اشتہارات ہوتے ہیں، ان کو دیکھنا کیسا ہے ؟
یا مثلًا جو حضرات ڈیجیٹل تصویر کو حرام کہتے ہیں ، ان کے لیے علماء صلحاء وغیرہ کی ڈیجیٹل تصاویر دیکھنا کیسا ہے ؟
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے:
"عن عائشة ۔رضي الله تعالى عنها۔: "أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن يترك في بيته شيئا فيه تصاليب إلا نقضه". رواه البخاري وأبو داود وأحمد ولفظه "لم يكن يدع في بيته ثوبا فيه تصليب إلا نقضه."
(الکتاب الثانی، أبواب اللباس، الباب الثامن: باب حكم ما فيه صورة، 3/ 403/ 571، ط:دار ابن جوزی)
اس سے تو دیکھنے کی حرمت معلوم ہوتی ہے, اسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی نے مرقاۃ المفاتیح میں یہ فرمانا "
"قال العلماء: التصوير حرام، والمحو واجب، حيث لا يجوز الجلوس في مشاهدته "
(کتاب الجنائز، باب دفن المیت، 3/ 1216/ 1696، ط: دار الفکر)
یہ بھی اس پر واضح دال ہے کہ تصویر کو دیکھنا بھی حرام ہے۔
لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت سے جس کو علامہ شوکانی صاحب نے نیل الأوطار میں نقل کیا ہے:
"وعن عائشة ۔رضي الله تعالى عنها۔ أنها نصبت سترا وفيه تصاوير فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزعه قالت: فقطعته وسادتين فكان يرتفق عليهما. متفق عليه. وفي لفظ أحمد: فقطعته مرفقتين فلقد رأيته متكئا على إحداهما وفيها صورة."
(الکتاب الثانی، أبواب اللباس، الباب الثامن: باب حكم ما فيه صورة، 3/ 405/ 572، ط:دار ابن جوزی)
اس روایت سے دیکھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ کی ذکر کردہ روایت:
"عن عائشة رضي الله عنها، أن أم حبيبة وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير، فذكرتا للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تيك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة"
(باب فضائل أصحاب النبی ۔صلی اللہ علیه وسلم۔باب ھجرة الحبشة، 5/ 129/ 3862، ط:دار التأصیل)
کے تحت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
"وفي الحديث دليلٌ على تحريم الصور، وفيه جواز حكاية ما يشاهد المؤمن من العجائب، ووجوب بيان حكم ذلك على العالم به وذم فاعل المحرَّمات."
(خلاصة الکلام شرح عمدة الأحکام، کتاب الجنائز، ص:131، ط: شامله)
پس اگر تصویر کو دیکھنا حرام ہوتا تو آپ علیہ السلام ان کو ضرور منع کرتے، لہذا آپ علیہ السلام کا معرض بیان میں سکوت فرمانا اس کے جواز کےطرف اشارہ کرتا ہے اور پھر چوں کہ یہ زندگی کے آخری لمحات کا قصہ ہے نسخ کا احتمال بھی نہیں کیا جا سکتا۔
ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
" ومن طريق هلال عن عروة بلفظ قال في مرضه الذي مات فيه ولمسلم من حديث جندب أنه صلى الله عليه وسلم قال نحو ذلك قبل أن يتوفى بخمس إلخ."
مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی عبارت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
" روي أن النبي صلي الله عليه وسلم : دخل الكعبة فرأى فيها صورة إبراهيم وإسماعيل عليهما السلام [رواه أبوداود ]وفي شروط عمر رضي الله عنه - على أهل الذمة أن يوسعوا أبواب كنائسهم ، وبيعهم ليدخلهم المسلمون للمبيت بها والمارة بدوابهم وروي ابن عائذ في فتوح الشام: أن النصارى صنعوا لعمر - رضي الله عنه - الطعام حين قدم الشام فدعوه في الكنيسة فأبى أن يذهب ، وقال لعلي - رضي الله عنه - امض بالناس فليتعدوا ، فذهب علي بالناس فدخل الكنيسة وتغدى هو والمسلمونوجعل على ينظر إلى الصور،وقال: ما على أمير المؤمنين لودخل فأكل وهذا اتفاق منهم على إباحة دخولها وفيها الصورة[ كتاب الوليمة]
خصو صا خط کشیده عبارت تو واضح طور پر تصویر دیکھنے کی جو از پر دلالت کرتی ہے۔
علامہ شامی رحمہ اللہ کی عبارت بھی دیکھنے کے جو از پر دلالت کرتی ہےجیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
" ولينظر هل يحرم النظر بشهوة إلى الصورة المنقوشة محل تردد ولم أره فليراجع."
(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس، 6/ 373، ط: سعید)
مذکورہ عبارت میں جب مشتھاہ تصویر کی دیکھنے کی حرمت میں تردد ہے تو غیر مشتھاہ میں ظاہر ہے کہ خفت آتی ہے ، بہر حال تشویش بہت ہے، ان دلائل کو دیکھتے ہوئے مدلل محقق جواب عنایت فرمائیں؟
اولاً اشکالات کا جواب ملاحظہ فرمائیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت :
"عن عائشة ۔رضي الله تعالى عنها۔: "أن النبي صلى الله عليه وسلم لم يكن يترك في بيته شيئا فيه تصاليب إلا نقضه". رواه البخاري وأبو داود وأحمد ولفظه "لم يكن يدع في بيته ثوبا فيه تصليب إلا نقضه."
(الکتاب الثانی، أبواب اللباس، الباب الثامن: باب حكم ما فيه صورة، 3/ 403/ 571، ط:دار ابن جوزی)
اوراسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ تعالی کا قول "
"قال العلماء: التصوير حرام، والمحو واجب، حيث لا يجوز الجلوس في مشاهدته."
(کتاب الجنائز، باب دفن المیت، 3/ 1216/ 1696، ط: دار الفکر)
یہ دونوں حوالہ جات،(حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاکی روایت اور حضرت ملا علی القاری رحمہ اللہ) مطلق ہیں ،اس کو بالقصد جاندار کی تصویر دیکھنے پر محمول کیا جائے گا، اور بعد میں جوروایات اور حوالہ جات ذکر کی جاتی ہیں اس میں ہر ایک کسی نہ کسی وجہ سے مستثنٰی ہے، وجہ استثناء بھی بیان کی گئی ہے۔
دوسری حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی اس روایت سے جس کو علامہ شوکانی نے نیل الأوطار میں نقل کیا ہے:
"وعن عائشة ۔رضي الله تعالى عنها۔ أنها نصبت سترا وفيه تصاوير فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فنزعه قالت: فقطعته وسادتين فكان يرتفق عليهما. متفق عليه. وفي لفظ أحمد: فقطعته مرفقتين فلقد رأيته متكئا على إحداهما وفيها صورة."
(الکتاب الثانی، أبواب اللباس، الباب الثامن: باب حكم ما فيه صورة، 3/ 405/ 572، ط:دار ابن جوزی)
تو اس کاجواب یہ ہے کہ اس کپڑے پر جاندار کی جو تصاویر تھیں، وہ بہت چھوٹی تھیں،دوسرا اس میں تصویر کی تذلیل تھی،اس پر نظر بلا ارادہ نظر پڑھنے کا جواز ہے ،لیکن اس جواز کو مطلق نہیں قرار دیا جاسکتا کہ ہر تصویر کو دیکھا جائے ۔
اسی طرح امام بخاری کی ذکر کردہ روایت:
"عن عائشة رضي الله عنها، أن أم حبيبة وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير، فذكرتا للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: "إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تيك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة."
(باب فضائل أصحاب النبی ۔صلی اللہ علیه وسلم۔باب ھجرة الحبشة، 5/ 129/ 3862، ط:دار التأصیل)
کے تحت علامہ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
"وفي الحديث دليلٌ على تحريم الصور، وفيه جواز حكاية ما يشاهد المؤمن من العجائب، ووجوب بيان حكم ذلك على العالم به وذم فاعل المحرَّمات."
(خلاصة الکلام شرح عمدة الأحکام، کتاب الجنائز، ص:131، ط: شامله)
تو پوری روایت میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا،و ام حبیبہ رضی اللہ عنہا،دونوں نےحبشہ کی ہجرت میں یہ مناظر دیکھے تھے،جو کہ ابتداء اسلام کا واقعہ ہے،عین ممکن ہے کہ تصویر کی حرمت ان کے سامنے نہ ہو،اور یہ تصویر ہی تھی مجسمہ نہیں تھا،البتہ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصویر سازی کی پرزور مذمت فرمائی،تو اس سے بھی دیکھنے پر استدلال غیر تام ہوگا۔
نیز علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا قول مطلق عجائبات کے حوالے سے ہے، البتہ اگر ایسی جگہ جانا پڑا کہ جہاں تصویریں بھی تھی،تو اگر بلاقصد تصویر پر نظر پڑ گئی تو معاف ہوگا۔
مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ کی عبارت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
" روي أن النبي صلي الله عليه وسلم : دخل الكعبة فرأى فيها صورة إبراهيم وإسماعيل عليهما السلام [رواه أبوداود ]وفي شروط عمر رضي الله عنه - على أهل الذمة أن يوسعوا أبواب كنائسهم ، وبيعهم ليدخلهم المسلمون للمبيت بها والمارة بدوابهم وروي ابن عائذ في فتوح الشام: أن النصارى صنعوا لعمر - رضي الله عنه - الطعام حين قدم الشام فدعوه في الكنيسة فأبى أن يذهب ، وقال لعلي - رضي الله عنه - امض بالناس فليتعدوا ، فذهب علي بالناس فدخل الكنيسة وتغدى هو والمسلمون وجعل على ينظر إلى الصور، وقال: ما على أمير المؤمنين لودخل فأكل وهذا اتفاق منهم على إباحة دخولها وفيها الصورة[ كتاب الوليمة]
ان عبارت میں وہاں جانا جہاں پر تصویریں ہوں ،مباح ہے، لیکن اس سے تصویر کے دیکھنے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا ،البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عمل راوی نے نقل کیا ہے ، داخل ہونے کے بعد ضرور تصویر پر نظر پڑے گی ،بلا ارادہ، تو اس کو ارادۃً نہیں قرار دیا جاسکتا،بہر کیف بلاقصد منع نہیں ہے ۔
علامہ شامی رحمہ اللہ کی عبارت بھی دیکھنے کے جو از پر دلالت نہیں کرتی ہے، جیسا کہ وہ لکھتے ہیں:
" ولينظر هل يحرم النظر بشهوة إلى الصورة المنقوشة محل تردد ولم أره فليراجع."
(کتاب الحظر والإباحة، فصل فی النظر والمس، 6 / 373، ط: سعید)
علامہ شامی رحمہ اللہ کے اس قول سے تصویر کو دیکھنے میں بطور دلیل پیش کرنا درست نہیں ،کیوں کہ شامی صاحب رحمہ اللہ کا مقصد اس عبارت سے عورت کے بدن کو کپڑوں کے اندر شہوت کے ساتھ دیکھنے کے بارے میں آیا ہے اور تردد کا اظہار اس بنا پر کیا ہے کہ عورت کے بدن کو کپڑوں کے اندر شہوت کے ساتھ دیکھنا جائز نہیں کیوں کہ اس سے فتنہ پیدا ہوتاہے تو کیا کپڑوں میں مستور عورت کے بدن کو تصویر میں دیکھنے میں بھی وہی فتنے برپا ہوں گے یا نہیں ؟ اس تصویر سے فتنہ پیدا ہونے میں علامہ شامی تردد کا اظہار کر رہے ہیں، نہ کہ تصویر کو دیکھنے کے جواز اور عدم جواز میں علامہ شامی کو تردد ہوا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تصویر دیکھنے کے بارے میں تفصیل یہ ہے،کہ جو تصویر حکومت کے قانون کی وجہ سے مجبوری ہو مثلًا پاسپورٹ شناختی کارڈ یا نوٹ والی تصویر، اس کا گناہ مجبور آدمی پر نہیں یا بہت چھوٹی تصویر ہو کہ درمیانی نظر والے کو نظر نہیں آتی ہو،یا اہانت کے طور پر زمین پر بچھادی ہو ،یا ان کو مٹانے کے وجہ سے ان کو دیکھے،یا اس مکان میں کسی عذر کی بنا پر داخل ہو جس میں تصاویر ہو ں تو ان تصاویر کو دیکھنے سےاور اس پر نظر پڑنے سے انسان گناہ گار نہیں ہوگا،اور جن تصاویر کا بنانا حرام ہے،ان کو بالقصد ہر صورت میں دیکھنا حرام ہے،البتہ اگر بلاقصد نظر پڑے تو پھر دیکھنے والا گناہ گار نہیں ہوگا۔
تفصیلی وضاحت اور قلبی تشفی کے لیے(تصویر کی شرعی حیثیت)مؤلفہ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کا مطالعہ کریں۔
نصب الرایۃ میں ہے:
"أحاديث الباب: أخرج الأئمة الستة في "كتبهم" عن أبي طلحة الأنصاري، واسمه "زيد بن سهيل" أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا يدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة"، انتهى. لمسلم، ولبعضهم فيه قصة، وزاد فيه البخاري: يريد صورة التماثيل التي فيها الأرواح، ذكره في "المغازي في باب شهود الملائكة بدرا"، ولمسلم عن أبي صالح عن أبي هريرة مرفوعا: لا يدخل الملائكة بيتا فيه تماثيل أو تصاوير، انتهى.حديث آخر: أخرجه أبو داود. والنسائي. وابن ماجه. وأحمد في "مسنده". وابن حبان في "صحيحه" عن عبد الله بن نجي عن أبيه عن علي عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة ولا جنب"، انتهى. لم يذكر ابن ماجه فيه: الجنب، وعبد الله بن نجي فيه مقال، وزاد أحمد فيه: ولا صورة روح، ولشيخنا علاء الدين ههنا وهمان، قلد فيهما غيره: أحدهما: أنه لم يعز الحديث إلا لأبي داود. والترمذي، من حديث أبي هريرة، وقد قدمنا أنه في "الصحيحين. والثاني: أن حديث أبي هريرة عند أبي داود. والترمذي ليس فيه ذكر الملائكة، وهذا لفظهما عن مجاهد عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أتاني جبرئيل، فقال لي: أتيتك البارحة، فلم يمنعني أن أدخل، إلا أنه كان في باب البيت تمثال الرجال وكان في البيت قرام ستر، فيه تماثيل، وكان في البيت كلب، فمر برأس التمثال، فليقطع، فيصير كهيئة الشجرة، ومر بالستر، فليقطع، وليجعل فيه وسادتين منتبذتين، توطآن، ومر بالكلب، فليخرج، ففعل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا الكلب للحسن. أو للحسين، كان تحت نضد لهم، فأمر به، فأخرج، انتهى. رواه أبو داود في "اللباس". والترمذي في "الاستئذان". والنسائي في "الزينة"، ورواه ابن حبان في "صحيحه"، وهذا ليس فيه ذكر الملائكة، وإنما هو مخصوص بجبرئيل، في واقعة مخصوصة، فليس هذا حديث الكتاب لا لفظا، ولا معنى، ويا ليته ذكره من حديث أبي طلحة.واعلم أن المصنف رحمه الله استدل بهذا الحديث على شيء، وهو غير مطابق لمقصوده، فإنه قال: ويكره أن يكون فوق رأسه. أو بين يديه. أو بحذائه تصاوير، أو صورة معلقة "يعني في الصلاة" لحديث جبرئيل عليه السلام "إنا لا ندخل بيتا فيه كلب أو صورة"، ثم قال: ولو صلى على بساط فيه تصاوير، فلا بأس، لأن فيه استهانة بالصورة، فالحديث عام بالنسبة إلى كل صورة، وكلام المصنف خاص بالصورة المعلقة، وقد يستدل له بحديث أخرجه النسائي1 عن أبي هريرة، قال: استأذن جبرئيل على النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ادخل، فقال: كيف أدخل، وفي بيتك ستر فيه تصاوير؟ إما أن تقطع رءوسها. أو يجعل بساطا يوطأ، "فإنا معشر الملائكة لا ندخل بيتا فيه تصاوير"، انتهى. ورواه ابن حبان في "صحيحه"، ولفظه: فإن كنت لابد فاعلا، فاقطع رءوسها، أو اقطعها وسائد، أو اجعلها بسطا، انتهى.حديث آخر: أخرجه البخاري في "صحيحه في كتاب المظالم" عن عائشة أنها اتخذت على سهوة لها سترا، فيه تماثيل، فهتكه النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: فاتخذت منه نمرقتين، فكانتا في البيت نجلس عليهما، زاد أحمد في "مسنده"، فلقد رأيته متكئا على إحداهما، وفيها صورة.حديث آخر: رواه الطبراني في "معجمه الوسط" حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي ثنا عبد الله بن عمر بن أبان ثنا عبد الرحيم بن سليمان عن سليمان بن أرقم عن محمد بن سيرين عن أبي هريرة، يرفع الحديث إلى النبي صلى الله عليه وسلم في التماثيل، أنه رخص فيما كان يوطأ، وكره ما كان منصوبا، انتهى. وقال: لم يروه عن ابن سيرين إلا سليمان بن أرقم، انتهى."
( نصب الراية لأحاديث الهداية ، ج:2، ص:99، ط: مؤسسة الريان للطباعة والنشر)
فتح الباري لابن رجب میں ہے:
"ثنا محمد بن المثنى: ثنا يحيى، عن هشام: اخبرني أبي، عن عائشة، أن أم حبيبة وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير، فذكرتا ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: ((إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، وأولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة)) .هذا الحديث يدل على تحريم بناء المساجد على قبور الصالحين، وتصوير صورهم فيها كما يفعله النصارى، ولا ريب أن كل واحد منهما محرم على انفراد، فتصوير صور الآدميين محرم، وبناء القبور على المساجد بانفراده محرم كما دلت عليه النصوص أخر يأتي ذكر بعضها.وقد خرج البخاري في ((تفسير سورة نوح)) من ((كتابه)) هذا من حديث ابن جريج، فقال: عطاء، عن ابن عباس: صارت الأوثان التي كانت في قوم نوح في العرب تعبد، أما ود كانت لكلب بدومة الجندل، وأما سواع كانت لهذيل، وأما يغوث فكانت لمراد، ثم لبني غطيف بالجرف عند سبإ وأما يعوق فكانت لهمدان، وأما نسر فكانت لحمير لآل ذي الكلاع -: أسماء رجال صالحين من قوم نوح، فلما هلكوا أوحى الشيطان إلى قومهم أن انصبوا إلى مجالسهم التي كانوا يجلسون أنصابا، وسموها بأسمائهم، ففعلوا فلم تعبد، حتى إذا هلك أولئك ونسخ العلم عبدت.وقد ذكر الإسماعيلي: أن عطاء هذا هو الخرساني، والخرساني لم يسمع من ابن عباس. والله أعلم.فإن اجتمع بناء المسجد على القبور ونحوها من آثار الصالحين مع تصوير صورهم فلا شك في تحريمه، سواء كانت صورا مجسدة كالأصنام أو على حائط ونحوه، كما يفعله النصارى في كنائسهم، والتصاوير التي في الكنيسة التي ذكرتها أم حبيبة وأم سلمة أنهما رأتاها بالحبشة كانت على الحيطان ونحوها، ولم يكن لها ظل، وكانت أم سلمة وأم حبيبة قد هاجرتا إلى الحبشة.فتصوير الصور على مثل صور الأنبياء والصالحين؛ للتبرك بها والاستشفاع بها محرم في دين الإسلام، وهو من جنس عبادة الأوثان، وهو الذي أخبر النبي صلى الله عليه وسلم أن أهله شرار الخلق عند الله يوم القيامة.وتصوير الصور للتآنس برؤيتها أو للتنزه بذلك والتلهي محرم، وهو من الكبائر وفاعله من اشد الناس عذابا يوم القيامة، فإنه ظالم ممثل بأفعال الله التي لا يقدر على فعلها غيره، والله تعالى{لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ}[الشورى:11] لا في ذاته ولا في صفاته ولا في أفعاله سبحانه وتعالى."
(فتح الباري لابن رجب، ج:2، ص:202، ط: مكتبة الغرباء الأثرية)
البحرائق میں ہے:
(قوله ولبس ثوب فيه تصاوير) لأنه يشبه حامل الصنم فيكره وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لم يصل اهـ.
وهذه الكراهة تحريمية وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصويره صورة الحيوان وأنه قال قال أصحابنا وغيرهم من العلماء تصوير صور الحيوان حرام شديد التحريم وهو من الكبائر لأنه متوعد عليه بهذا الوعيد الشديد المذكور في الأحاديث يعني مثل ما في الصحيحين عنه صلى الله عليه وسلم «أشد الناس عذابا يوم القيامة المصورون يقال لهم أحيوا ما خلقتم» ثم قال وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره فصنعته حرام على كل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم ودينار وفلس وإناء وحائط وغيرها اهـ.
فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل لتواتره قيد بالثوب لأنها لو كانت في يده وهو يصلي لا تكره لأنه مستور بثيابه كذا لو كان على خاتمه كما في الخلاصة وفي المحيط رجل في يديه تصاوير وهو يؤم الناس لا تكره إمامته لأنها مستورة بالثياب فصار كصورة في نقش خاتم وهو غير مستبين اهـ.
وهو يفيد أن المستبين في الخاتم تكره الصلاة معه ويفيد أنه لا يكره أن يصلي ومعه صرة أو كيس فيه دنانير أو دراهم فيها صور صغار لاستتارها ويفيد أنه لو كان فوق الثوب الذي فيه صورة ثوب ساتر له فإنه لا يكره أن يصلي فيه لاستتارها بالثوب الآخر والله سبحانه أعلم
(قوله وأن يكون فوق رأسه أو بين يديه أو بحذائه صورة) لحديث الصحيحين عنه صلى الله عليه وسلم «لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة» وفي المغرب الصورة عام في كل ما يصور مشبها بخلق الله تعالى من ذوات الروح وغيرها وقولهم ويكره التصاوير المراد بها التماثيل اهـ.
فالحاصل أن الصورة عام والتماثيل خاص والمراد هنا الخاص فإن غير ذي الروح لا يكره كالشجر لما سيأتي والمراد بحذائه يمينه ويساره ولم يذكر ما إذا كانت خلفه للاختلاف ففي رواية الأصل لا يكره لأنه لا يشبه العبادة وصرح في الجامع الصغير بالكراهة ومشى عليه في الخلاصة وبأنها إذا كانت في موضع قيامه أو جلوسه لا يكره لأنها استهانة بها وكذلك على الوسادة إن كانت قائمة يكره لأنه تعظيم لها وإن كانت مفروشة لا تكره كذا في المحيط قالوا وأشدها كراهة ما يكون على القبلة أمام المصلي والذي يليه ما يكون فوق رأسه والذي يليه ما يكون عن يمينه ويساره على الحائط والذي يليه ما يكون خلفه على الحائط أو الستر وإنما لم تكره الصلاة في بيت فيه صورة مهانة على بساط يوطأ أو مرفقة يتكأ عليها مع عموم الحديث من أن الملائكة لا تدخله وهو علة الكراهة لأن شر البقاع بقعة لا تدخلها الملائكة لوجود مخصص وهو ما في صحيح ابن حبان «استأذن جبريل عليه السلام على النبي صلى الله عليه وسلم فقال ادخل فقال كيف أدخل وفي بيتك ستر فيه تصاوير فإن كنت لا بد فاعلا فاقطع رءوسها أو اقطعها وسائد أو اجعلها بسطا»
وفي البخاري في كتاب المظالم عن عائشة رضي الله عنها «أنها اتخذت على سهوة لها سترا فيه تماثيل فهتكه النبي صلى الله عليه وسلم قالت فاتخذت منه نمرقتين فكانتا في البيت نجلس عليهما» زاد أحمد في مسنده «ولقد رأيته متكئا على أحدهما وفيه صورة» والسهوة كالصفة تكون بين البيت وقيل بيت صغير كالخزانة والنمرقة بكسر النون وسادة صغيرة والوسادة المخدة لكنه يقتضي عدم كراهة الصلاة على بساط فيه صورة وإن كانت في موضع السجود لأن ذلك ليس بمانع من دخول الملائكة كما أفادته النصوص المخصصة وإن علل بالتشبه بعبادة الأصنام فممنوع فإنهم لا يسجدون عليها وإنما ينصبونها ويتوجهون إليها إلا أن يقال إن فيها صورة التشبه بعبادتها حال القيام والركوع وفيه تعظيم لها إن سجد عليها ولهذا أطلق الكراهة في الأصل فيما إذا كان على البساط المصلى عليه صورة لأن الذي يصلى عليه معظم فوضع الصورة فيه تعظيم لها بخلاف البساط الذي ليس بمصلى وتقدم عن الجامع الصغير التقييد بموضع السجود فينبغي أن يحمل إطلاق الأصل عليه وأنها إذا كانت تحت قدميه لا يكره اتفاقا وفي الخلاصة ولا بأس بأن يصلي على بساط فيه تصاوير لكن لا يسجد عليها ثم قال ثم التمثال إن كان على وسادة أو بساط لا بأس باستعمالهما وإن كان يكره اتخاذهما ثم اعلم أن العلماء اختلفوا فيما إذا كانت الصورة على الدراهم والدنانير هل تمنع الملائكة من دخول البيت بسببها فذهب القاضي عياض إلى أنهم لا يمتنعون وأن الأحاديث مخصصة وذهب النووي إلى القول بالعموم ثم المراد بالملائكة المذكورين ملائكة الرحمة لا الحفظة لأنهم لا يفارقونه إلا في خلوته بأهله وعند الخلاء
(قوله إلا أن تكون صغيرة) لأن الصغار جدا لا تعبد فليس لها حكم الوثن فلا تكره في البيت والكراهة إنما كانت باعتبار شبه العبادة كذا قالوا وقد عرفت ما فيه والمراد بالصغيرة التي لا تبدو للناظر على بعد والكبيرة التي تبدو للناظر على بعد كذا في فتح القدير ونقل في النهاية أنه كان على خاتم أبي موسى ذبابتان وأنه لما وجد خاتم دانيال عليه السلام في عهد عمر رضي الله عنه وجد عليه أسد ولبؤة بينهما صبي يلحسانه وذلك أن بخت نصر قيل له يولد مولود يكون هلاكك على يديه فجعل يقتل من يولد فلما ولدت أم دانيال ألقته في غيضة رجاء أن يسلم فقيض الله له أسدا يحفظه ولبؤة ترضعه فنقشه بمرأى منه ليتذكر نعم الله عليه ودفعه عمر إلى أبي موسى الأشعري وكان لابن عباس كانون محفوف بصور صغار اهـ.
وفي الخلاصة من كتاب الكراهة رجل صلى ومعه دراهم وفيها تماثيل ملك لا بأس به لصغرها. اهـ.
(قوله أو مقطوع الرأس) أي سواء كان من الأصل أو كان لها رأس ومحي وسواء كان القطع بخيط خيط على جميع الرأس حتى لم يبق لها أثر أو يطليه بمغرة ونحوها أو بنحته أو بغسله وإنما لم يكره لأنها لا تعبد بدون الرأس عادة ولما رواه أحمد عن علي قال «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في جنازة فقال أيكم ينطلق إلى المدينة فلا يدع بها وثنا إلا كسره ولا قبرا إلا سواه ولا صورة إلا لطخها» اهـ.
وأما قطع الرأس عن الجسد بخيط مع بقاء الرأس على حاله فلا ينفي الكراهة لأن من الطيور ما هو مطوق فلا يتحقق القطع بذلك ولهذا فسر في الهداية المقطوع بمحو الرأس كذا في النهاية قيد بالرأس لأنه لا اعتبار بإزالة الحاجبين أو العينين لأنها تعبد بدونها وكذا لا اعتبار بقطع اليدين أو الرجلين وفي الخلاصة وكذا لو محى وجه الصورة فهو كقطع الرأس
(قوله أو لغير ذي روح) لما تقدم أنه ليس بتمثال ولما في الصحيحين عن سعيد بن أبي الحسن قال جاء رجل إلى ابن عباس فقال إني رجل أصور هذه الصور فأفتني فيها فقال له ادن مني فدنا ثم قال له ادن مني فدنا حتى وضع يده على رأسه وقال أنبئك بما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول «كل مصور في النار يجعل له بكل صورة صورها نفسا فتعذبه في جهنم» قال ابن عباس فإن كنت لا بد فاعلا فاصنع الشجر وما لا نفس له اهـ.ولا فرق في الشجر بين المثمر وغيره وهو مذهب العلماء كافة إلا مجاهدا فإنه كره المثمر وفي الخلاصة ولو رأى صورة في بيت غيره يجوز له محوها وتغييرها وفي النهاية عن محمد في الأجير لتصوير تماثيل الرجال أو ليزخرفها والأصباغ من المستأجر قال لا أجر له لأن عمله معصية وفي التفاريق هدم بيتا مصورا بالأصباغ ضمن قيمة البيت والأصباغ غير مصور."
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق، تغميض عينيه في الصلاة، ج:2، ص:31، ط: دار الكتاب الإسلامي)
الموسوعة الفقهية الكويتية میں ہے:
النظر إلى الصور:
يحرم التفرج على الصور المحرمة عند المالكية والشافعية. لكن إذا كانت مباحة الاستعمال - كما لو كانت مقطوعة أو مهانة - فلا يحرم التفرج عليها.قال الدردير في تعليل تحريم النظر: لأن النظر إلى الحرام حرام .ولا يحرم النظر إلى الصورة المحرمة من حيث هي صور عند الحنابلة.ونقل ابن قدامة أن النصارى صنعوا لعمر رضي الله عنه حين قدم الشام طعاما فدعوه فقال: أين هو؟ قال: في الكنيسة. فأبى أن يذهب: وقال لعلي رضي الله عنه: امض بالناس فليتغدوا. فذهب علي رضي الله عنه بالناس فدخل الكنيسة، وتغدى هو والناس، وجعل علي ينظر إلى الصور، وقال: ما على أمير المؤمنين لو دخل فأكل .ولم نجد نصا عند الحنفية في ذلك. لكن قال ابن عابدين: هل يحرم النظر بشهوة إلى الصورة المنقوشة؟ محل تردد، ولم أره، فليراجع.فظاهره أنه مع عدم الشهوة لا يحرم.على أنه قد علم من مذهب الحنفية دون سائر المذاهب: أن الرجل إذا نظر إلى فرج امرأة بشهوة، فإنها تنشأ بذلك حرمة المصاهرة؛ لكن لو نظر إلى صورة الفرج في المرآة فلا تنشأ تلك الحرمة؛ لأنه يكون قد رأى عكسه لا عينه. ففي النظر إلى الصورة المنقوشة لا تنشأ حرمة المصاهرة من باب أولى. وعند الشافعية: لا يحرم النظر - ولو بشهوة - في الماء أو المرآة. قالوا: لأن هذا مجرد خيال امرأة وليس امرأة. وقال الشيخ الباجوري: يجوز التفرج على صور حيوان غير مرفوعة. أو على هيئة لا تعيش معها، كأن كانت مقطوعة الرأس أو الوسط، أو مخرقة البطون. قال: ومنه يعلم جواز التفرج على خيال الظل المعروف؛ لأنها شخوص مخرقة البطون. وفي صحيح البخاري عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: أريتك في المنام، يجيء بك الملك في سرقة من حرير، فقال لي: هذه امرأتك، فكشفت عن وجهك الثوب، فإذا أنت هي قال ابن حجر: عند الآجري من وجه آخر عن عائشة: لقد نزل جبريل بصورتي في راحته حين أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يتزوجني ففي هذا الحديث نظر الرجل إلى المرأة التي يحل له النظر إليها، ما لم تكن الصورة محرمة، على ما تقدم من التفصيل والخلاف. والله أعلم.
الدخول إلى مكان فيه صور:
يجوز الدخول إلى مكان يعلم الداخل إليه أن فيه صورا منصوبة على وضع محرم، ولو كان يعلم بذلك قبل الدخول، ولو دخل لا يجب عليه الخروج.هذا كله مذهب الحنابلة. قال أحمد في رواية الفضل عنه، لمن سأله قائلا: إن لم ير الصور إلا عند وضع الخوان بين أيديهم. أيخرج؟ قال: لا تضيق علينا. إذا رأى الصور وبخهم ونهاهم. يعني: ولا يخرج. قال المرداوي في تصحيح الفروع: هذا هو الصحيح من قولين عندهم، وهو ظاهر كلام الإمام أحمد. وقطع به في المغني، قال: لأن النبي صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة فرأى فيها صورة إبراهيم وإسماعيل يستقسمان بالأزلام، فقال: قاتلهم الله، لقد علموا أنهما لم يستقسما بها قط قالوا: ولأنه كان في شروط عمر رضي الله عنه على أهل الذمة أن يوسعوا أبواب كنائسهم للمسلمين، ليدخلوها للمبيت بها، وللمارة بدوابهم. وذكروا قصة علي في دخولها بالمسلمين ونظره إلى الصورة كما تقدم. قالوا: ولا يمنع من ذلك ما ورد أن الملائكة لا تدخل بيتا فيه صورة؛ لأن ذلك لا يوجب علينا تحريم دخوله، كما لا يوجب علينا الامتناع من دخول بيت فيه كلب أو جنب أو حائض، مع أنه قد ورد أن الملائكة لا تدخله ومثل هذا مذهب المالكية في الصور المجسمة التي ليست على وضع محرم عندهم، أو غير المجسمة. أما المحرمة فإنها تمنع وجوب إجابة الدعوة على ما يأتي. ولم نجد في كلامهم ما يبين حكم الدخول إلى مكان هي فيه.واختلف مذهب الشافعية في ذلك، والراجح عندهم - وهو القول المرجوح عند الحنابلة - أنه يحرم الدخول إلى مكان فيه صور منصوبة على وضع محرم. قالوا: لأن الملائكة لا تدخل بيتا فيه صورة. قال الشافعي رحمه الله: إن رأى صورا في الموضع ذوات أرواح لم يدخل المنزل الذي فيه تلك الصور إن كانت منصوبة لا توطأ، فإن كانت توطأ فلا بأس أن يدخله. والقول الثاني للشافعية: عدم تحريم الدخول، بل يكره. وهو قول صاحب التقريب والصيدلاني، والإمام، والغزالي في الوسيط، والإسنوي.قالوا: وهذا إن كانت الصور في محل الجلوس، فإن كانت في الممر أو خارج باب الجلوس لا يكره الدخول؛ لأنها تكون كالخارجة من المنزل. وقيل: لأنها في الممر ممتهنة إجابة الدعوة إلى مكان فيه صور: إجابة الدعوة إلى الوليمة - وهي طعام العرس - واجبة عند الجمهور، لحديث من لم يجب الدعوة فقد عصى الله ورسوله وقيل هي: سنة. وإجابة الدعوة لغيرها مستحبة.وفي جميع الأحوال إذا كان في المكان صور على وضع محرم - ومثلها أي منكر ظاهر - وعلم بذلك المدعو قبل مجيئه، فقد اتفق الفقهاء على أن الإجابة لا تكون واجبة؛ لأن الداعي يكون قد أسقط حرمة نفسه بارتكابه المنكر، فتترك الإجابة عقوبة له وزجرا عن فعله. وقال البعض - كالشافعية -: تحرم الإجابة حينئذ.ثم قيل: إنه إذا علم أنها بحضوره تزال، أو يمكنه إزالتها، فيجب الحضور لذلك. وفي المسألة اختلاف وتفصيل ينظر تحت عنوان (دعوة)ما يصنع بالصورة المحرمة إذا كانت في شيء ينتفع به: ينبغي إخراج الصورة عن وضعها المحرم إلى وضع تخرج فيه عن الحرمة، ولا يلزم إتلافها بالكلية، بل يكفي حطها إن كانت منصوبة. فإن كان لا بد من بقائها في مكانها، فيكفي قطع الرأس عن البدن، أو خرق الصدر أو البطن، أو حك الوجه من الجدار، أو محوه أو طمسه بطلاء يذهب معالمه، أو يغسل الصورة إن كانت مما يمكن غسله. وإن كانت في ثوب معلق أو ستر منصوب، فيكفي أن ينسج عليها ما يغطي رأسها. قال ابن عابدين: ولو أنه قطع الرأس عن الجسد بخيط - مع بقاء الرأس على حاله - فلا ينفي الكراهة؛ لأن من الطيور ما هو مطوق، فلا يتحقق القطع بذلك. والدليل لهذه المسألة ما في حديث علي رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه إلى المدينة وأمره أن يسوي كل قبر، ويكسر كل صنم، ويطمس كل صورة. وفي روايات مسند أحمد للحديث وردت العبارات الآتية: أن يلطخ الصورة، أو أن يلطخها، أو ينحتها، أو يضعها، ورواية الوضع صحيحة. وليس في شيء من تلك الروايات كسر الصورة أو إتلافها كما نص على كسر الأصنام. ومن الدليل أيضا حديث عائشة رضي الله عنها في شأن الستر الذي فيه الصور، وفيه أنه قال: أخريه عني، وفي رواية أنه هتكه بيده، وفي أخرى أنه أمر بجعله وسائد."
(الموسوعة الفقهية الكويتية، ج:11،ص:126، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)
الدر المختار و رد المحتار میں ہے:
"وأما فعل التصوير فهو غير جائز مطلقا لأنه مضاهاة لخلق الله تعالى كما مر، [خاتمة]
قال في النهر: جوز في الخلاصة لمن رأى صورة في بيت غيره أن يزيلها؛ وينبغي أن يجب عليه؛ ولو استأجر مصورا فلا أجر له لأن عمله معصية كذا عن محمد."
(کتاب الصلاۃ،ج:1،ص:650،ط:سعید)
بلوغ القصدوالمرام میں ہے:
"يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء، إذا كان يدوم، وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ. ويحرم النظر إليه؛ إذا النظر إلى المحرم لَحرام."
(جواھر الفقه، تصویر کے شرعی احکام، ص:264/265 از: بلوغ القصد والمرام، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا، انتهى. وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ۔"
(كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة،ج:1،ص:647، ط: سعيد)
فتاوی شامی میں ہے:
"و حرم الانتفاع بها (أي بالخمر) و لو لسقي دواب أو لطين أو نظر للتلهي."
(كتاب الأشربة، ج:6، ص:449، ط:سعيد)
"الشرح الكبير للشيخ الدردير وحاشية الدسوقي "میں ہے:
"والحاصل أنه يحرم تصوير حيوان عاقل أو غيره إذا كان كامل الأعضاء إذا كان يدوم إجماعا وكذا إن لم يدم على الراجح كتصويره من نحو قشر بطيخ ويحرم النظر إليه إذ النظر إلى المحرم حرام بخلاف ناقص عضو فيباح النظر إليه وغير ذي ظل كالمنقوش في حائط أو ورق فيكره إن كان غير ممتهن وإلا فخلاف الأولى كالمنقوش في الفرش وأما تصوير غير الحيوان كشجرة وسفينة فجائز فتسقط الإجابة مع ما ذكر."
(باب في النكاح وما يتعلق به، فصل الوليمة، ج:2، ص:337، ط:دار الفكر)
امداد الفتاویٰ میں ہے:
"... اگرچہ اس تصویر کی طرف کوئی امر مکروہ بھی منسوب نہ کیا گیا ہو، محض تفریح و تلذذ ہی کے لیے ہو، کیونکہ محرمات شرعیہ سے تلذذ بالنظر بھی حرام ہے:في الدر المختار كتاب الأشربة: و حرم الانتفاع بها (أي بالخمر) و لو لسقي دواب أو لطين أو نظر للتلهي."
(رسالہ تصحیح العلم فی تقبیح الفلم، ج:4، ص: 258، ط:مکتبہ دارالعلوم کراچی)
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
"تصاویر پر مشتمل اخبارات کی تجارت:
(سوال ۲۴۴)رسائل و مجلات واخبارات میں لوگوں کی تصاویر شائع ہوتی ہیں جیسے آج کل لیڈران ہندج کی ، تو آیا ان کا دیکھنا اور خریدنا ازروئے شرع درست ہے یانہیں ؟
(الجواب)جن کا مقصد صرف مضامین ہے ان کی نظر اگر اتفاقاً تصاویر پر پڑجائے تو معافی کی امید ہے اور جن کا مقصد ہی تصویر دیکھنا ہو تو یہ قابل مواخذہ ہوسکتا ہے خاص کر عورتوں کی تصویریں کہ جن میں بعض عریاں یا نیم عریاں تصویر ہوں ۔۔۔۔۔"
"(فتاوی رحیمیہ، ج:9، ص:207، ط:دارالاشاعت)
جواہر الفقہ میں ہے:
"جن تصاویر کا بنانا اور گھر میں رکھنا ناجائز ہے،ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے،…۔ وھذا کلہ مصرح في مذھب المالکیة وموٴید بقواعد مذھبنا ونصہ عن المالکیة ما ذکرہ العلامة الدردیر فی شرحہ علی مختصر الخلیل حیث قال:یحرم تصویر حیوان عاقل أو غیرہ إذا کان کامل الأعضاء إذا کان یدوم،وکذا إن لم یدم علی الراجح کتصویرہ من نحو قشر بطیخ، ویحرم النظر إلیہ إذ النظر إلی المحرم لحرام اھ( از بلوغ القصد والمرام ص :۱۹)۔"( رسالہ: تصویر کے شرعی احکام ، مطبوعہ: مکتبہ دار العلوم کراچی)
جواہر الفقہ میں ہے:
" جن تصاویر کا بنانا اور گھر میں رکھنا ناجائز ہے،ان کا ارادہ اور قصد کے ساتھ دیکھنا بھی ناجائز ہے۔"
( تصویر کے شرعی احکام ، ج:7، ص:264 ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505101753
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن