بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

تصویر کا حکم/ یوٹیوب پر چینل بنانے کا حکم


سوال

آج کل بڑے بڑے علماء اور مفتی حضرات نے اپنا چینل بنایا ہوا ہے ، کیا ان کی ویڈیو دیکھنا ٹھیک ہے؟ پہلے سنتے تھے کہ ویڈیو دیکھنا اور اس کی آمدنی حرام ہے،  فی زمانا بڑے بڑے عُلما کا اپنا چینل بنا ہوا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں ان کے فالوور زہیں اور یوٹیوب ان کو لاکھوں روپیہ ماہانہ دے رہا۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ پہلے حرام تھا تو اب حلال کیسے ہو گیا ؟ آپ ذرا روشنی ڈالیں اس مسئلہ پر، کیوں کہ فی زمانہ دین دار طبقہ بھی اس کو برائی نہیں سمجھ رہا۔

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی جاندار کی تصویر بنانااور اسے دیکھنا ناجائز ہے، چاہے تصویر کے لیے آلہ تصویر کوئی بھی استعمال کیا گیا ہو،ناجائز ہے۔

لہٰذا یوٹیوب پر چینل بنانا اور اس سے آمدنی حاصل کرنا دونوں ناجائز ہیں،  اس سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

مزید دیکھیے:

یوٹیوب سے کمائی کرنا شرعا کیسا ہے؟

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة. قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (‌لا ‌تدخل ‌الملائكة ‌بيتا فيه تماثيل أو تصاوير)."

(صحيح المسلم، كتاب اللباس والزينة، 3 /1672، ط:دار إحياء التراث العربي)

رد المحتار میں ہے:

"قال في البحر: وفي الخلاصة وتكره التصاوير على الثوب صلى فيه أو لا انتهى، وهذه الكراهة تحريمية. وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم ‌تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته ‌حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـفينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـكلام البحر ملخصا."

(رد المحتار، كتا ب الصلاة، 1 /647، ط:سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144511101943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں