بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

طواف اور نماز ادا کرنے میں معذور شخص کا حکم


سوال

 میری زوجہ   کو خارش کی ایسی بیماری ہے کے اس سے بار بار خون آتا ہے، برائے   مہربانی ہمیں حج کے احرام کی مکمل تفصیل بتا دیں   کہ احرام میں اگر کسی زخم سے خون نکلے تو کیا حکم ہے؟ معذور کی حالت ہوگی اور نماز اور حج کے ارکان کیسے ادا کرنے ہونگے؟

 

جواب

سائل  کی  زوجہ  کو   اگرزخم  سے  خون  نکلنے  کا   مرض ایسا ہے کہ اسے کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں اتنا وقت بھی نہیں  ملتا  کہ وہ پاک اور باوضو ہوکر وقتی فرض نماز ادا کرسکے تو وہ شرعی معذور   ہے، اب جب تک کسی نماز کا مکمل وقت  خون  نکلنے   کے عذر کے بغیر نہ گزر جائے وہ شرعی معذور   رہی گی، اور اس کا حکم یہ   ہے   کہ جب وہ حج یا عمرہ کرنے جائے تو  وہ ہر فرض نماز کے وقت میں ایک مرتبہ وضو کرے ، اس سے  جتنے طواف کرنا چاہے کر لے، جتنی نمازیں چاہے پڑھے۔  پھر  جب دوسری نماز کا وقت داخل ہو جائے تو نیا وضو کر لے۔ 

اور اگر مرض ایسا نہیں ہے کہ  زخم  سے  خون   تسلسل سے آتا ہو،  بلکہ کچھ دیر سے آتا ہے   تو   اس  صورت  میں  وہ   طواف شروع کر دے ،  پھر جب  خون  نکلنے  لگے   تو  وضو کر لے، اور واپس آ  کر وہیں سے طواف شروع کر دے جہاں سے چھوڑا تھا،  البتہ اگرچارچکر  سے پہلے وضو ٹوٹ گیا تو وضو کے بعد از سر نو طواف کرنا افضل ہے۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ  صرف طواف کے لیے وضو ضروری ہے، طواف کے علاوہ حج و عمرہ کے دیگر افعال کے لیے وضو ضروری نہیں ہے،  اس لیے باقی افعال میں مریض و غیر مریض کا حکم ایک جیسا ہے۔

نیز    کپڑوں کی پاکی ناپاکی کے حوالے سے حکم یہ ہے کہ اگر کپڑے یا جسم پر لگنے والا خون    پھیلاؤ میں ایک درہم کی مقدار سے زیادہ ہے   تو اسے   دھوکر کپڑے یا جسم کو پاک کرکے نماز پڑھنا ضروری ہوگا، اور اس حالت میں نماز پڑھ لی تو کپڑے یا جسم کو پاک کرکے نماز کا اعادہ کرنا ہوگا۔  اور اگر ایک درہم کی مقدار یا اس سے کم ہو  تو  بھی پاک کرکے نماز ادا کرنا چاہیے، البتہ اگر لاعلمی یا غفلت میں اسے   دھوئے بغیر نماز پڑھ لی تو کراہت کے ساتھ ادا ہوجائے گی۔

غنية الناسك ميں ہے:

"ولو خرج من الطواف إلی تجدید وضوء ثم عاد بنی لو کان ذلك بعد إتیان أکثره، …ویستحب الاستیناف في الطواف إذا کان ذلك قبل إتیان أکثره،…وصاحب العذر الدائم إذا طاف أربعة أشواط ثم خرج الوقت توضأ وبنی ولا شیٴ علیه، وکذا إذا طاف أقل منها إلا أن الإعادة حینئذ أفضل". 

( قبیل باب السعي بین الصفا والمروة، ص:48) 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقةً)؛ لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في : ﴿لدلوك الشمس﴾ [الإسراء: 78]  (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى، (فإذا خرج الوقت بطل)".

(ج:1، ص:305،  کتاب الطہارۃ، مطلب فی احکام المعذور، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100155

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں