بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تیمارداری میں مریض کو تسلی دینی چاہیے


سوال

 میں  ایک ڈاکٹر  ہوں،  مجھے کچھ پوچھنا ہے جس کا ہم روز بروز سامنا کر رہے ہیں، مثا ل کے طور پر ایک شخص کینسر جیسی سنگین بیماری میں مبتلا ہے، مریض کے ساتھ اس کا بیٹا ہوتا ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کے والد کو اس کی بیماری کے بارے میں معلوم ہو،  بیماری کے  ہوتے ہوئے اس کے والد سب کچھ سمجھ سکتے ہیں،  طبی کتابوں کے مطابق والد جس قسم کے کینسر میں مبتلا ہیں اس کی شرح اموات بہت زیادہ ہوتی ہے،  جیسے مہینے میں 90 فیصد،  طبی اخلاقیات کے مطابق ہمیں مریض کو ہر چیز کی وضاحت کرنی چاہیے۔

1. اب سوال یہ ہے کہ کیا میں مریض کو اس کی بیماری اور اس کی اموات کے بارے میں بتا سکتا ہوں جیسے کہ یہ سنگین بیماری ہے  اگر مریض پوچھے؟

2. کیا میں اسے اس کی حالت کے بارے میں بتا سکتا ہوں اگر وہ اس کے بارے میں نہ پوچھے؟

3. کیا میں اسے بتا سکتا ہوں کہ اگر اس کا بیٹا کچھ نہ بتانے پر اصرار کرے یا یہ بتاؤں کہ اسے معمولی سی بیماری ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مریض کے بیٹے  اور ڈاکٹرکو چاہیے کہ وہ مریض کی بیماری سے شفایابی کے لیے دعا کریں، انہیں  تسلی دیں، حکمت سے کام لیں اور  بہتر طریقے سے علاج جاری  رکھتے ہوئے اس کی دل جوئی  کرتے رہیں، اور   اگر واقعۃً  اس کی بیماری زندگی کے آخری اسٹیج تک پہنچ چکی ہو تو حکمت  سے آگاہ کرسکتے ہیں؛ تاکہ  مریض اپنے اوپر حقوق اللہ اور حقوق العباد وغیرہ  سے متعلق معاملات  ٹھیک کرلے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"5338 - حدثنا إسحق: حدثنا خالد بن عبد الله، عن خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل على رجل يعوده، فقال: (لا بأس، طهور إن شاء الله). فقال: كلا، بل حمى تفور، على شيخ كبير، كيما تزيره القبور. قال النبي صلى الله عليه وسلم: (فنعم إذا)"

(كتاب المرضى، باب: ما يقال للمريض، وما يجيب، ج:5، ص:2143، ط: دار ابن كثير)

شرح صحیح بخاری لابن بطال میں ہے:

"قال المهلب: فيه أن السنة أن يخاطب العليل بما يسليه من ألمه وبغطة بأسقامه بتذكيره بالكفارة لذنوبه وتطهيرة من آثامه ويطمعه بالإقالة لقوله: لا بأس عليك مما تجده بل يكفر الله به ذنوبك ثم يفرج عنك فيجمع لك الأجر والعافية لئلا يسخط أقدار الله، واختياره له وتفقده إياه بأسباب الرحمة ولايتركه إلى نزعات الشيطان والسخط فربما جازاه الله بالتسخط وبسوء الظن عقابا فيوافق قدرا يكون سببا إلى أن يحل به مالفظ به من الموت الذى حكم على نفسه."

(كتاب المرضى، باب: ما يقال للمريض، وما يجيب، ج:9، ص:382، ط: مكتبة الرشد)

شرح الفقہ الأکبر للملا علی القاری میں ہے:

"ثم هذا إن كانت التوبة فيما بينه وبين الله كشرب الخمر، وإن كانت عما فرط فيه من حقوق الله كصلاة وصيام وزكاة فتوبته أن يندم على تفريطه أولاً، ثم يعزم على أن لا يعود أبدا ولو بتأخير صلاة عن وقتها ثم يقضي ما فاته جميعا، وإن كانت عما يتعلق بالعباد فإن كانت من مظالم الأموال فتتوقف صحة التوبة منها مع ما قدمناه في حقوق الله تعالى على الخروج عن عهدة الأموال وإرضاء الخصم في الحال والاستقبال بأن يتحلل منهم، أو يردها إليهم أو إلى من يقوم مقامهم من وكيل،أو وارث هذا."

(مسألة في التوبة وشرائطها، ص:264، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512101809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں