ایک شخص کے نانا کا انتقال ہو چکا ہے، نانا کے ورثا میں میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی تھی ، بیٹے اور بیٹی نے میراث تقسیم نہیں کی تھی، بلکہ مل کر میراث کو استعمال کرتے رہے، یہاں تک کے ان کی شادیاں ہوئیں اور اولادیں ہوئیں ،اب بیٹے اور بیٹی کا انتقال ہو چکا ہے، پہلے بیٹے کا انتقال ہوا، اس کےورثا میں تین بیٹے ہیں، پھر بیٹی کا انتقال ہوا ،اس کے ورثا میں شوہر اور چار بیٹے ہیں، اب ان کے درمیان میراث تقسیم ہو ئی ،لیکن بیٹی کے ورثا میں سے ایک نے صاحب ثروت ہو نے کی وجہ سے اپنا حصہ نہیں لیا تھا، یعنی اس کا حصہ شروع ہی سےدوسرے ورثا نے آپس میں تقسیم کر لیا تھا، ا س نےاپنے حصہ پر قبضہ نہیں کیا تھا، اور اس نے اس پر رضامندی ظاہر کی تھی لیکن اب وہ محتاج ہو چکا ہے ،جبکہ دوسرےورثاء صاحب ثروت ہیں، اب پو چھنا یہ کہ کیا یہ دوسرے ورثاء سے اپنے حصے کا شرعاًمطالبہ کر سکتا ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا ترکہ میں سے اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض کسی دوسرے وارث یا ورثاء کے حق میں دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، اس سے اس کا حق ختم نہیں ہوتا، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اپنا حصہ کسی کو دینا چاہے یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجائے تو یہ شرعاً جائز اور معتبر ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کا حصہ شروع ہی سےدوسرے ورثا نے آپس میں تقسیم کر دیا تھا،اور اس نے اس پر رضامندی ظاہر کی تھی ، اوراس نےترکہ کی تقسیم کے بعد اپنے حصہ پر قبضہ نہیں کیا تھا، تو اب اگر وہ دوبارہ اپنے حق کا مطالبہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔لہذا ورثا ء پر لازم ہے کہ وہ شریعت کے مطابق اس وارث کا حصہ ادا کریں۔
تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:
" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط."
(کتاب الدعوی،ج: 7،ص:505 ، ط :سعید)
"الأشباہ والنظائر "لابن نجیم میں ہے:
"لو قال الوارث : تركت حقي لم يبطل حقه إذ الملك لا يبطل بالترك."
( ج1، ص:309، ما یقبل الإسقاط من الحقوق وما لایقبله، ط:قدیمی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102546
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن