میری اہلیہ کا یہ دعوی ہے کہ انہوں نے مجھ سے کہلوایا کہ اگر آپ نے تین دن بستر علیحدہ رکھا یعنی ساتھ نہ سوئے تو تیسری طلاق بھی ہو جائے گی، اس جملے کے بارے میں مجھے اتنا تو یقین ہے کہ میں نے اس کے جواب میں کہا کہ اچھا ٹھیک ہے، لیکن مذکورہ جملہ میں نے اپنی زبان سے کہا اس کا مجھے علم نہیں، اس کے بعد میری لڑائی ہوئی تو میں نے علیحدگی اختیار کرلی اور بستر الگ کرلیا، اور اس سے پہلے بھی لڑائی جھگڑے میں زجر و اصلاح کے لیے ایک دو دن بستر علیحدہ کر لیتا تھا، اس لڑائی کے بعد میں دوسرے روز میں اس کے پاس بستر پر گیا تو وہ اٹھ کر دوسری جگہ چلی گئی، اس کے بعد میں دوسری جگہ اس کے پاس گیا تو وہاں سے بھی اٹھ گئی، یہ معاملہ تین دن کے اندر ہوا، اس کے بعد میں نہیں گیااور تین دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔ اب میری بیوی کا دعوی ہے کہ تین دن ہو گئے ہیں آپ نے بستر علیحدہ رکھا ہوا ہے لہذا تیسری طلاق بھی واقع ہوگئی ہے۔ اب شرعاً تیسری طلاق واقع ہوئی کہ نہیں ؟ اور تین علیحدہ رہنے سے طلاق واقع ہوگی یہ بات میرے ذہن میں نہیں تھی بلکہ میں نے ویسے لڑائی کی وجہ سے بستر الگ کیا ہوا تھا؟
صورتِ مسئولہ میں سائل نے جب بیوی کے مذکورہ جملے"اگر آپ نے تین دن بستر علیحدہ رکھا یعنی ساتھ نہ سوئے تو تیسری طلاق بھی ہو جائے گی، کے جواب میں کہا "اچھا ٹھیک ہے" اس سے شرعاً تعلیق طلاق یعنی طلاق کو بستر الگ رکھنے کی شرط کے ساتھ معلق کرنا پایا گیا،پھر جب سائل لڑائی کے دوسرے دن ہی اس کے پاس بستر پر گیا لیکن بیوی خود وہاں سے اٹھ گئی تو سائل کی طرف سے بستر علیحدہ رکھنے کی شرط نہیں پائی گئی بلکہ یہ بیوی کی جانب سے نے بستر علیحدہ رکھناپایاگیا، لہذا اس کے بعد چونکہ تین دن بستر علیحدہ رکھنا نہیں پایا گیا تھا،اس لئے سائل کی بیوی پر تیسری طلاق واقع نہیں ہوئی، دونوں کا نکاح بدستور برقرار ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"عرض عليه اليمين فقال: نعم كان حالفًا في الصحيح كذا في الصيرفية وغيرها."
(کتاب الایمان، ص:779، ج:3، ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"قال لأصحابه: إن لم أذهب بكم الليلة إلى منزلي فامرأته كذا فذهب بهم بعض الطريق فأخذهم العسس فحبسهم لايحنث."
(باب تعلیق الطلاق، کتاب الطلاق، ص:378، ج:3، ط:سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ألفاظ الشرط إن وإذا وإذما وكل وكلما ومتى ومتى ما ففي هذه الألفاظ إذا وجد الشرط انحلت اليمين وانتهت لأنها تقتضي العموم والتكرار فبوجود الفعل مرة تم الشرط وانحلت اليمين فلايتحقق الحنث بعده إلا في كلما."
(الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، کتاب الطلاق، ص:415، ج:1، ط:رشیدیه)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144306100147
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن