بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

تین جانوروں کا گوشت ملاکر تقسیم کرنا


سوال

تین جانوروں کا گوشت ملاکر تقسیم کیا جاسکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں تینوں جانور اگر اجتماعی قربانی کے ہیں جن میں سے ہر ایک جانور میں مختلف لوگ شریک ہیں تو گوشت کی تقسیم کی صورت میں ہرایک جانور کو الگ الگ کرکے اس میں شریک افراد کے درمیان باقاعدہ وزن کرکے تقسیم کرنا ضروری ہوگا،   اگرچہ شرکاء  کمی زیادتی پر راضی ہی کیوں نہ  ہوں، محض تخمینہ یا اندازہ کرکے تقسیم کرنا درست نہیں ہوگا،   ہاں اگر  گوشت کی تقسیم کے وقت جانور کے دیگر اعضاء مثلاً کلہ، پائے، تلی، کلیجہ وغیرہ کو بھی گوشت کے ساتھ رکھ کر تقسیم کرلیا جائے تو پھر تول کر تقسیم کرنا لازم نہیں ہوگا، بلکہ اندازے  سے تقسیم کرنا بھی جائز ہوگا، بشرطیکہ ہر جانور کو الگ الگ کرلیا گیا ہو۔

اور اگر تینوں جانور تین الگ الگ افراد کے ہیں تب بھی ہر جانور کو الگ الگ کرنا ضروری ہوگا، پھر اس کے بعد ہر شخص اپنی صوابدید کے مطابق جو چاہے کرےاور اگر تینوں جانوروں کو ملاکر تقسیم کرنا چاہیں تو گوشت کے ساتھ دیگر اعضاء کو بھی رکھ کر تقسیم کرنا ضروری ہوگا۔

اور اگر تینوں جانور ایک ہی شخص کے ہیں تو تینوں کو ملاکر پھر لوگوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ہر جانور کو الگ الگ کرنے کی ضرورت نہیں۔

باقی گوشت کی تقسیم کا  افضل طریقہ یہ ہے کہ قربانی کرنے والے کو جو گوشت ملا ہے خواہ حصّہ کے طور پر ملا ہو یا مکمل جانور اپنی ہو، اس گوشت کو تین حصّوں میں تقسیم کرکےاس میں سے ایک حصہ غرباء میں دےدے اور ایک حصہ رشتہ داروں میں،  اور ایک حصہ خود رکھے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ويقسم اللحم وزنا لا جزافا إلا إذا ضم معه الأكارع أو الجلد) صرفا للجنس لخلاف جنسه.

و في الرد: (قوله ويقسم اللحم) انظر هل هذه القسمة متعينة أو لا، حتى لو اشترى لنفسه ولزوجته وأولاده الكبار بدنة ولم يقسموها تجزيهم أو لا، والظاهر أنها لا تشترط لأن المقصود منها الإراقة وقد حصلت. وفي فتاوى الخلاصة والفيض: تعليق القسمة على إرادتهم، وهو يؤيد ما سبق غير أنه إذا كان فيهم فقير والباقي أغنياء يتعين عليه أخذ نصيبه ليتصدق به اهـ ط. وحاصله أن المراد بيان شرط القسمة إن فعلت لا أنها شرط، لكن في استثنائه الفقير نظر إذ لا يتعين عليه التصدق كما يأتي، نعم الناذر يتعين عليه فافهم (قوله لا جزافا) لأن القسمة فيها معنى المبادلة، ولو حلل بعضهم بعضا قال في البدائع: أما عدم جواز القسمة مجازفة فلأن فيها معنى التمليك واللحم من أموال الربا فلا يجوز تمليكه مجازفة.

وأما عدم جواز التحليل فلأن الربا لا يحتمل الحل بالتحليل، ولأنه في معنى الهبة وهبة المشاع فيما يحتمل القسمة لا تصح اهـ وبه ظهر أن عدم الجواز بمعنى أنه لا يصح ولا يحل لفساد المبادلة خلافا لما بحثه في الشرنبلالية من أنه فيه بمعنى لا يصح ولا حرمة فيه (قوله إلا إذا ضم معه إلخ) بأن يكون مع أحدهما بعض اللحم مع الأكارع ومع الآخر البعض مع البعض مع الجلد عناية."

(كتاب الأضحية، ج:6، ص:317، ط:ايج ايم سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} [الحج: 36] وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} [الحج: 28] وقول النبي عليه الصلاة والسلام «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله عز وجل بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى - عز شأنه - في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعا، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة."

(كتاب التضحية، فصل في بيان ما يستحب قبل التضحية وبعدها وما يكره، ج:5، ص:81، ط:دار الكتب العلمية بیروت)

فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144512100327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں