میرے پاس تین لاکھ نقدی موجود ہے، جو میں یہ رقم اپنے ذاتی مکان کی خریداری کے لیے جمع کر رہا ہوں، ایسی صورت میں کیا مجھ پر قربانی واجب ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ رقم چاندی کے نصاب سے زائد ہے، اگر یہ رقم سائل کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں موجود رہے اور سائل پر قرض وغیرہ نہ ہو، یا قرض تو ہو لیکن قرض منہا کرنے کے بعد بھی چاندی کے نصاب کے بقدر مال موجود رہے تو سائل پر قربانی کرنا شرعًا واجب ہے۔
رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:
' وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)،
(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم.'
(كتاب الأضحية، ٦ / ٣١٢، ط: دار الفكر )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512100052
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن