بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین شرائط طلاق کہنے کا حکم


سوال

آج سے کچھ ماہ قبل میں نے اپنی بیوی کو دورانِ حمل  یعنی جب وہ اُمید سے تھی اُس وقت ایک ہی بار میں تین شرائط طلاق کہا تھا، برائے کرم مجھے بتائیے گا دین اور شریعت میں وہ اب میرے نکاح میں ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو دین میں اس کا حل کیا ہے؟

جواب

جب سائل نے اپنی بیوی کو  مذکورہ الفاظ سے تین طلاق دے دیں تو تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ  سائل پر حرام ہوچکی ہے نکاح ختم ہوگیا ،  اب رجوع  یا تجدیدِ نکاح کی صورت  باقی نہیں، عدت گزارنے کے بعد عورت  دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے،اب  اگر  سائل کی بیوی  کسی دوسری جگہ   نکاح کرے ، اور اس نکاح میں سائل کا کوئی کردار نہ ہو، اور  نکاح کے بعد دوسرا شوہر حقوقِ زوجیت ادا کرے اور اس کے بعد اس کے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ اسے  طلاق دےدے  اور اس شوہر کی عدت بھی گزر جائے تو مذکورہ خاتون پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگی(یعنی اب پہلے شوہر سے  نکاح جائز ہوگا)۔

فتاوی دارالعلوم دیوبند 9-194 میں ہے:

’’اپنی بیوی سے کہا: "یہ عورت مجھ پر تین شرط طلاق ایک دفعہ ہے"  تو کیا حکم ہے ؟
(سو ال ۳۲۰) ایک شخص نے غصہ کی حالت میں اپنی عورت کو یہ کہا کہ یہ عورت مجھ پر تین شرط طلاق ایک دفعہ ہے ، اس طور پر کہہ دیا اور عدت کے اندر زبانی رجعت بھی کر لی ، آیا بغیر نکاح و حلالہ کے یہ عورت اس پر جائز ہوسکتی ہے یا نہیں؟
(جواب) اس صورت میں اس کی زوجہ پر تین طلاق واقع ہوگئی، اور وہ عورت مطلقہ ثلاثہ ہو کر مغلظہ بائنہ ہوگئی، بدون حلالہ کے اس سے شوہر اول دوبارہ نکاح نہیں کرسکتا اور ر جعت صحیح نہیں ہوئی،  کیوں کہ ایک دفعہ تین طلاق دینے سے بھی تین طلاق واقع ہوجاتی ہے۔ قال في الدر المختار:  و البدعي ثلاث متفرقة.  قال في الشامي:  و كذا بكلمة واحدة بالأولی إلخ و ذهب جمهور الصحابة و التابعین و من بعدهم من أئمة المسلمین إلیٰ أنه یقع ثلاث الخ .‘‘

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200324

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں