میرے شوہر نے مجھے وائس میسج میں تین طلاقیں دیں جس کے الفاظ یہ تھے کہ :"میں حسنین ساجد عائشہ بنت محمد علی کو اپنے ہوش و حواس میں طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں ،طلاق دیتا ہوں اور آج کے بعد وہ میری بہن ہے "،اس کے بعد میں نے عدت بھی گزار دی اور شوہر نے دوسری شادی بھی کر لی ہے۔
اب چوں کہ میرا شناختی کارڈ اس کے نام پر ہے، وہ مجھے طلاق نامہ نہیں دے رہے ہیں اور اب میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ مجھے تحریری فتوی دے دیں تاکہ میں کورٹ سے خلع کے لیے رجوع کرلوں ۔
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃًسائلہ کے شوہر نے اسےوائس میسج کے ذریعہ تین مرتبہ ان الفاظ سے طلاق دی ہے کہ :"میں طلاق دیتا ہوں "تو اس سے سائلہ پرتین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں ،سائلہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،اب شوہر کے لیے رجوع کرنے یا تجدید ِنکاح کی شرعاًاجازت نہیں ہے ،سائلہ اگر اپنی عدت مکمل کر چکی ہیں تو دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے،تاہم قانونی دشواریوں سے بچنے کے لیے سائلہ کو چاہئے کہ مرد کے ان وائس میسج کو متعلقہ عدالت یا یونین کونسل میں پیش کر کے کوئی تحریرحاصل کرلے۔
قرآن مجید میں ہے:
"{فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُۥ مِنۢ بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُۥ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَآ أَن يَتَرَاجَعَآ إِن ظَنَّآ أَن يُقِيمَا حُدُودَ ٱللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ."[البقرة: 230]
ترجمہ: پھر اگر کوئی ( تیسری ) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ نکاح کرلے۔ پھر اگر وہ اس کو طلاق دے دے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جاویں، بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہوں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے جو دانش مند ہیں۔ (بیان القرآن)
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"وقوله تعالى: فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره أي أنه إذا طلق الرجل امرأته طلقة ثالثة بعد ما أرسل عليها الطلاق مرتين، فإنها تحرم عليه حتى تنكح زوجا غيره، أي حتى يطأها زوج آخر في نكاح صحيح، فلو وطئها واطئ في غير نكاح ولو في ملك اليمين، لم تحل للأول، لأنه ليس بزوج."
(تفسير سورة البقرة، الآية:230، ج:1، ص:469، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"[فروع] كرر لفظ الطلاق وقع الكل،
(قوله كرر لفظ الطلاق) بأن قال للمدخولة: أنت طالق أنت طالق أو قد طلقتك قد طلقتك أو أنت طالق قد طلقتك أو أنت طالق وأنت طالق."
(کتاب الطلاق ،مطلب الطلاق یقع بعدد قرن بہ لا بہ،ج:3ص:293،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل -{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}."
(کتاب الطلاق،فصل فی حکم الطلاق البائن، ج:3، ص:187، ط:دارالكتب العلمية)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز."
(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:472، ط: دار الفكر)
فقط اللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608101810
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن