ایک آدمی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ،اب سالہ شوہر سے کہتاہے کہ اس کو اپنے گھر میں کسی کمرے میں رہنے دو تاکہ لوگ ہمیں یہ عار نہ دلائیں کہ آپ کی بہن کو طلاق ہوئی ہے، باقی اس کے ساتھ کسی قسم کا تعلقات نہ رکھیں ،شوہر کا کہنا ہے کہ اسلام کا جو حکم ہے میں اس پر عمل کروں گا باقی رواجات کو میں نہیں دیکھتا۔اس مسئلے میں درج ذیل امور مطلوب ہیں:
عورت عدت کہاں گزارے گی ؟ طلاق کے بعد شوہر کے ذمہ عورت کے کیا حقوق ہیں ؟میاں بیوی کا طلاق کے بعد ایک گھر میں رہنا جائز ہے یا نہیں ؟شوہر کی اس بیوی سے تین لڑکیاں ہیں، جو 10،13،14، سال کی ہیں اور دو لڑکے ہیں، ایک 8 سال کا دوسرا 22 مہینے کا ،ان بچوں کا حق دار کون ہے اور خرچہ کس کے ذمے ہوگا؟ حق مہر اور جہیز کے سامان کا حق دار شوہر ہے یا بیوی؟
بیوی پر عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) شوہر کے گھر پر گزارنا ضروری ہے اور اس عرصہ میں شوہر پر نان نفقہ اور رہائش کی سہولت دینا واجب ہے،اگر شوہر کے گھر پر پردے کا انتظام مطلقہ اور شوہر کے درمیان ممکن نہ ہو تو شوہر گھر سے نکلے گایا شوہر مطلقہ کو کسی دوسرے گھر کا انتظام کریگا یا مطلقہ شوہر کے اجازت سے اپنے میکے میں عدت گزارے گی ،عدت کے بعد مطلقہ شوہر کے ساتھ رہ سکتی ہے اس شرط پر کہ ان کے درمیان پردے کا انتظام موجود ہو مثلاً : شوہر پہلی منزل میں ہو اور مطلقہ دوسری منزل میں یا کوئی اور طریقہ ہو لیکن پردے کا انتظام موجود ہو۔
میاں بیوی کے درمیان جدائی واقع ہونے کےبعد لڑکا سات سال کی عمر تک اور لڑکی نو سال کی عمر تک ماں کی پرورش میں رہے گی ،اس کے بعد باپ کو اپنے پاس رکھنے کا حق حاصل ہوگا، لہذا 22مہینوں کا بچہ ماں کے پرورش میں رہے گا باقی چاروں بیٹیوں اور آٹھ سالہ لڑکا والد کے پرورش میں ہونگے ،اولاد کا نفقہ والد پر واجب ہے چاہے وہ والدہ کے پرورش میں ہو یا والد ہی کے پرورش میں ہو،بیٹوں کا نفقہ جب تک وہ کمانے کے قابل نہیں ہوجاتے اور بیٹیوں کا نفقہ شادی ہونے تک والد پر واجب ہے۔
جہیز میں جو کچھ بیوی لے کر آئی ہے وہ بیوی کی ہی ملکیت ہے اور جو سامان شوہر نے لیا ہے، وہ شوہر کی ملکیت ہے، البتہ جو چیزیں بطورِ تحفہ میاں بیوی یا ان دونوں کے رشتہ داروں نے دئیے ہیں ان پر اسی کی ملکیت ہوتی ہے جس کو تحفۃً دیا گیا ہو، پس گھریلو سامان کی تقسیم اسی بنیاد پر ہوگی۔
تحفة الفقھاء میں ہے:
"المعتدة إما إن كانت عن طلاق أو عن وفاة ،فإن كانت عن طلاق ينبغي لها أن لا تخرج من بيتها ليلا ولا نهارا بل يجب عليها السكنى في البيت الذي تسكن فيه وأجر السكنى والنفقة على الزوج، وأصله قوله تعالى و {لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا أن يأتين بفاحشة مبينة}.
ثم منزلها الذي تؤمر بالسكنى والاعتداد فيه هو الموضع الذي كانت تسكنه قبل مفارقة الزوج وقبل موته سواء كان الزوج ساكنا فيه أو لم يكن لأن الله تعالى أضاف البيت إليها والبيت المضاف إليها هو الذي تسكنه.
ولهذا قال أصحابنا إنها إذا زارت أهلها فطلقها زوجها كان عليها أن تعود إلى منزلها الذي كانت تسكن فيه فتعتد هنالك."
(کتاب الطلاق، باب مایجب علی المعتدة، 2/ 249، ط: دارالکتب العلمیة)
الفتاوی الھندیه میں ہے:
"(الباب الثالث عشر في العدة) هي انتظار مدة معلومة يلزم المرأة بعد زوال النكاح حقيقة أو شبهة المتأكد بالدخول أو الموت كذا في شرح النقاية للبرجندي. رجل تزوج امرأة نكاحا جائزا فطلقها بعد الدخول أو بعد الخلوة الصحيحة كان عليها العدة كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشرفی العدّة، 1/ 526، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً:
"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الثالث فی نفقة المعتدۃ، 1/ 557، ط: دارالفکر)
وفیھا أیضاً :
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدة أو فاجرة غير مأمونة كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به كذا في البحر الرائق. ولو تزوجت الأم بزوج آخر وتمسك الصغير معها أو الأم في بيت الراب فللأب أن يأخذها منها."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، 1/ 541، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً :
"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، 1/ 542، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً :
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد رجل معسر له ولد صغير إن كان الرجل يقدر على الكسب يجب عليه أن يكتسب وينفق على ولده كذا في فتاوى قاضي خان."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، 1/ 560، ط: دار الفکر)
وفیھا أیضاً :
"الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة .
ونفقة الإناث واجبة مطلقا على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال كذا في الخلاصة ."
(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الرابع، 1/ 562، ط: دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101417
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن