بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد تحلیل کی نیت سے دوسرا نکاح کرنے کا حکم


سوال

زید نے   اپنی بیوی کو نومبر 2019 میں 3  طلاقیں  زبانی بھی دیں اور دو گواہوں کے دستخط شدہ اسٹامپ پیپر پہ لکھ کے بھی دیں، درمیان میں اتنا عرصہ گزر گیا۔ زید کے چار بچے  ہیں، اس نے اپنے لیے سات آٹھ جگہ رشتے دیکھ لیے، لیکن کامیابی نہیں ملی، اب سب اپنے پرائے دوست وغیرہ اس کو مشورہ دے رہے ہیں کہ پہلی بیوی واپس لاؤ، شریعت میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے، اب دونوں کو بہت پچھتاوا ہورہا ہے اور دونوں چاہتے ہیں کہ پھر سے ہم ایک ہوجائیں، اس کے لیے شریعت کا جو بھی حکم ہے وہ ماننے کے لیے تیار ہیں، ان کو میں نے ساری شرائط بھی بتا دی ہیں  کہ اب واپسی دوسرے بندے سے نکاح و دخول کے بغیر ممکن نہیں، وہ دونوں اس کام کے  لیے بھی راضی ہیں، وہ اس طرح چاہتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو اور خاندان میں کسی کو پتا نہیں کہ ان کی تین طلاقیں ہوئی ہیں، وہ چاہتی ہے کہ  میرا نکاح دو تین گھنٹے  کے لیے ہو جائے تو شوہر ثانی اگر دخول کے بعد طلاق  دے تو کیا یہ گناہ کا عمل ہوگا؟ اور  پھر  مطلقہ خاتون عدت گزارنے کے بعد زوج اول کے نکاح میں آسکتی ہے؟ شوہر اول کے ساتھ دوبارہ نکاح کے لیے کیا شرائط ہوں گی؟ وہ مجھے کہتے ہیں کہ آپ ہی ہمارا کام سیدھا کریں، یعنی گھر کی بات گھر میں رہے  مجھے کوئی آسان طریقہ بتائیں۔۔ الغرض میری آپ صاحبان سے گزارش ہے کہ مجھے اس معاملہ میں کیا کرنا چاہیے کہ ان پر کوئی گناہ تو نہیں ہوگا اس کام کا؟

جواب

 شوہر اگر اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے تو  عورت اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجاتی ہے اور اس کے بعد شوہر کے لیے رجوع  یا تجدیِد نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا، ہاں اگر  عورت عدت گزارنے کے بعد دوسرے شخص سے  نکاح کرے، اور اس نکاح کرانے میں پہلے شوہر کا کردار نہ ہو،  اور دوسرا شوہر اس سے ہم بستری کرنے کے بعد از  خود  طلاق دے دے یا مرجائے  تو  پھر یہ عورت اس دوسرے شوہر کی  عدت گزار کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔

لیکن  اس شرط کے  ساتھ نکاح کرنا کہ دوسرا شخص ہم بستری کے بعد طلاق دے گا؛ تاکہ وہ پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے حدیث شریف کی رو سے  سخت گناہ، لعنت کا سبب  اور مکروہِ تحریمی ہے، اسی طرح دو تین گھنٹے یا محدود مدت کے لیے نکاح کی شرط لگائی جائے تو یہ نکاح کے مقاصد کے خلاف اور شرعًا  ناجائز ہے، البتہ اگر نکاح میں کوئی شرط نہ ہو اور دوسرا شخص نکاح کرتے ہوئے دل میں یہ بات چھپائے اور عقد میں اس کی تصریح نہ ہو اور نہ کوئی اجرت وغیرہ کا معاملہ طے ہو اور پہلا شوہر اس نکاح کرانے میں کردار ادا نہ کرے تو  اس کی گنجائش ہوگی،  اور یہ صورت حدیث میں وارد ہونے والی وعید کا مصداق نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3 / 414):

’’ (وكره) التزوج للثاني (تحريمًا) لحديث: «لعن المحلل والمحلل له» (بشرط التحليل) كتزوجتك على أن أحللك (وإن حلت للأول) لصحة النكاح وبطلان الشرط فلا يجبر على الطلاق كما حققه الكمال، خلافًا لما زعمه البزازي ... (أما إذا أضمر ذلك لا) يكره (وكان) الرجل (مأجورا) لقصد الإصلاح، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر ذكره البزازي.

(قوله: أما إذا أضمر ذلك) محترز قوله: بشرط التحليل (قوله: لا يكره) بل يحل له في قولهم جميعا قهستاني عن المضمرات (قوله: لقصد الإصلاح) أي إذا كان قصده ذلك لا مجرد قضاء الشهوة ونحوها.

وأورد السروجي أن الثابت عادة كالثابت نصًّا أي فيصير شرط التحليل كأنه منصوص عليه في العقد فيكره. وأجاب في الفتح بأنه لا يلزم من قصد الزوج ذلك أن يكون معروفا بين الناس، وإنما ذلك فيمن نصب نفسه لذلك وصار مشتهرا به اهـ تأمل.‘‘

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں