بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کے مطالبہ پر تین طلاقیں دینے کے بعد مہر کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک لڑکی اور لڑکا جو آپس میں چچا زاد ہیں ان کا رشتہ طے ہوا تھا،نکاح اور رخصتی بھی ہو گئی تھی،لیکن بیوی اپنے شوہر سے خوش نہیں تھی،(ناراضی  کی  وجہ یہی رشتہ تھا،اس لیے کہ وہ اس رشتہ کے طے ہونے پر خوش نہیں تھی،لیکن خاندان والوں کی وجہ سے مجبوراً قبول کر لیا تھا)شوہر سات سال تک اس کو خرچہ وغیرہ دیتا رہا، لیکن لڑکی نے اس کو ازدواجی تعلق قائم ہونے نہیں دیا،اور اس وجہ سے  سات سال کے عرصہ تک ایک مرتبہ بھی ازدواجی تعلق قائم نہیں ہوا،سات سال بعد بیوی نے طلاق کا مطالبہ کر دیا،اس کے مطالبہ کرنے پر شوہر نے اس کو تین طلاقیں دیں،تو کیامطلقہ اب مہر کا مطالبہ کر سکتی ہے؟اورشوہر نے مہر کے جو پیسے ادا کیے ہیں، کیا وہ  اس کے لیے حلال ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب لڑکی گھر بسانے پر آمادہ نہ تھی اور وہ خود علیحدگی مانگ رہی تھی اور سائل کا قصور بھی نہیں،تو سائل کے لیے حق تھاکہ بیوی کو خلع کا مشورہ دیتا اور باہمی رضا مندی سے خلع کرتا تو پھر حق مہر ختم ہو جاتا،لیکن جب ایسا نہیں کیااوراس مذکورہ شخص نے بیوی کے مطالبہ کرنے پر اس کو تین طلاقیں دی ہیں،اور اس کا بیوی کے ساتھ خلوتِ صحیحہ ہو ئی تھی،تو اگر ابھی تک حق مہر ادا نہیں کیا،تو شوہر پر اسےپورا حق مہر ادا کرنا لازم ہے،اور اگر ادا کیا ہے،تو شوہر کے لیے اس سے واپس کرنےکا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے،اورمطلقہ  کے لیے وہ حلال اور جائز ہے،کیوں کہ مہر عورت کا حق ہے،اگر میاں بیوی کے درمیان خلوتِ صحیحہ قائم ہو جائے،تو خواہ جسمانی تعلق قائم نہ بھی ہوا ہو،تب بھی شوہر پر پورا حق مہر لازم ہے،مہر کے لزوم کے لیے جسمانی تعلق قائم ہونا ضروری نہیں ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) بيان ما يتأكد به المهر فالمهر يتأكد بأحد معان ثلاثة.

الدخولوالخلوة الصحيحة وموت أحد الزوجين،سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط شيء منه بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، أما التأكد بالدخول فمتفق عليه، والوجه فيه أن المهر قد وجب بالعقد وصار دينا في ذمته، والدخول لا يسقطه؛ لأنه استيفاء المعقود عليه، واستيفاء المعقود عليه، يقرر البدل لا أن يسقطه كما في الإجارة؛ ولأن المهر يتأكد بتسليم المبدل من غير استيفائه لما نذكر فلأن يتأكد بالتسليم مع الاستيفاء أولى.

(وأما) التأكد بالخلوة فمذهبنا".

(کتاب النکاح، فصل بيان ما يتأكد به المهر، ج:2، ص:291، ط:مطبعة الجمالية بمصر)

البنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:

"(وإذا خلا الرجل بامرأته وليس هناك مانع من الوطء ثم طلقها فلها كمال المهر)۔۔۔‌والخلوة ‌الصحيحة قائمة مقام الدخول عندنا في تأكيد المهر".

(کتاب النکاح، بابالمھر، خلا الرجل بامرأته وليس هناك مانع من الوطء ثم طلقها، ج:5، ص:147، ط:دار الكتب العلمية - بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں