بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق کے بعد دوبارہ ساتھ رہنے کی کوئی صورت ہے؟


سوال

میری شادی  کو 10 سال ہوئے ہیں اور چار چھوٹے بچے ہیں، میرے شوہر کو چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ آتا ہے، ان کو پتہ نہیں چلتا کہ میں کیا بول رہا ہو اور بعد میں نارمل ہوجاتے ہیں، میری چھ سالہ بچی بیمار تھی اور مسلسل روئے جارہی تھی، اس پر میرے شوہر اور میری  ساس کو بہت غصہ آیا کہ ہر وقت روتے رہتے ہیں اور شور مچاتے رہتے ہیں، میں روٹیاں بنارہی تھی، میں نے بچی کو اپنے پاس بلایا اور شوہر سے کھانا کھانے کے لیے کہا تو انہوں نے کہا کہ دینا ہے دو یا نہ دو، میرے گھر سے نکل جاؤ، میری جان چھوڑدو، مجھے اور میری ماں کو دینے دو اپنے بچے اٹھاؤ اور اسی وقت نکلو، میرے اوپر ہاتھ اٹھایا، ساس کہنے لگی کہ یہ پاگل ہوگئی ہے، اس نے مجھے مارا ہے اور چیخنے لگی کہ اس کو ابھی گھر سے نکال، میرے شوہر نے غصہ میں آکر کہا جاؤ میں نے تمہیں طلاق دے دی اور یہ الفاظ انہوں نے  تین مرتبہ کہے اور کہا کہ اب میں آزاد ہوگیا ہوں، اپنے بچوں کو اٹھاؤ اور نکلو یہاں سے، اس کےبعد صبح اٹھ کر بالکل نارمل بات کررہے تھے۔

ہمارے بڑوں نے بات کی ہے، اب وہ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور میں بھی ان کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں، راہ نمائی فرمائیں کہ شرعا دوبارہ ساتھ رہنے کی کیا صورت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ سائلہ کا سوال صحیح ہے کہ اس کے شوہر نے یہ تین مرتبہ  کہا کہ: جاؤ میں نے تمہیں طلاق دے دی" تو اس سے اس  کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ، دونوں کا  نکاح ختم ہوگیا  ہے،  اور  بیوی شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے،  شوہر کے لیے بیوی سے رجوع کرنا یا دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا،   پس مذکورہ  خاتون  اپنی  عدت (مکمل تین ماہواری اگر حمل نہ ہو، اور ماہواری آتی ہو، اگر ماہواری نہ آتی ہو، تو تین ماہ، اور اگر حمل ہو تو     بچے کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد  ہوگی۔دوسرے شخص سے نکاح اور وظیفۂ زوجیت کی ادائیگی کے بعد اگر دوسرا شوہر سائلہ کو طلاق  دے دے، یا سائلہ اپنے شوہر سے خود طلاق یا خلع لے لے، یا شوہر کی وفات ہوجائے اور سائلہ  عدت گزار کر فارغ ہوجائے، اس کے بعد سائلہ  کےلیے  اپنے سابق شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا۔

قرآن کریم میں ہے:

"فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ." ﴿البقرة: ٢٣٠﴾

ترجمه:”پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دیدے عورت کو تو پھر وہ اس کے لیے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے پھر اگر یہ اس کو طلاق دیدے تو ان دونوں پر اس میں کچھ گناہ نہیں کہ بدستور پھر مل جاویں بشرطیکہ دونوں غالب گمان رکھتے ہوں کہ (آئندہ) خداوندی ضابطوں کو قائم رکھیں گے اور یہ خداوندی ضابطے ہیں حق تعالیٰ ان کو بیان فرماتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو دانشمند ہیں“۔(بیان القرآن)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله تعالى: ‌فإن ‌طلقها ‌فلا ‌تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره أي أنه إذا طلق الرجل امرأته طلقة ثالثة بعد ما أرسل عليها الطلاق مرتين، فإنها تحرم عليه حتى تنكح زوجا غيره، أي حتى يطأها زوج آخر في نكاح صحيح، فلو وطئها واطئ في غير نكاح ولو في ملك اليمين، لم تحل للأول، لأنه ليس بزوج".

(تفسير سورة البقرة، الآية:230، ج:1، ص:469، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

صحیح مسلم میں ہے:

"(1433) حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة ، حدثنا علي بن مسهر ، عن عبيد الله بن عمر ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة قالت: « ‌طلق رجل امرأته ‌ثلاثا، فتزوجها رجل، ثم طلقها قبل أن يدخل بها، فأراد زوجها الأول أن يتزوجها، فسئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك؟ فقال: لا حتى يذوق الآخر من عسيلتها ما ذاق الأول".

(كتاب النكاح، ‌‌باب لا تحل المطلقة ثلاثا لمطلقها حتى تنكح زوجا غيره، ج:4، ص:155، ط: دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت کو شوہر نے تین طلاقیں دےدیں ، اس سے کسی دوسرے مرد نے نکاح کر لیا پھر جماع سے قبل طلاق دےدی، اب پہلے شوہر نے چاہا کہ اس سے دوبارہ نکاح کرلے۔ رسول اللہ صلي الله عليه وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: نہیں ! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کا وہی مزہ نہ چکھ لے جو پہلے نے چکھا تھا ( یعنی لذت جماع جو پہلے نے حاصل کی تھی وہی دوسرا بھی حاصل نہ کرلے )۔"(تحفۃ المنعم)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولا بها أو غير مدخول بها كذا في فتح القدير ويشترط أن يكون الإيلاج موجبا للغسل وهو التقاء الختانين هكذا في العيني شرح الكنز".

(كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:472، ط: دار الفكر)

سنن  ابن ماجہ میں ہے:

"1935 - حدثنا محمد بن إسماعيل بن البختري الواسطي، حدثنا أبو أسامة، عن ابن عون ومجالد، عن الشعبي، عن الحارثعن علي، قال: ‌لعن ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم ‌المحلل والمحلل له".

(أبواب النكاح، باب المحلل والمحلل له، ج:3، ص:117، ط: دار الرسالة العالمية)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله وكره ‌بشرط ‌التحليل للأول) أي ‌كره ‌التزوج للثاني بشرط أن يحلها للأول بأن قال تزوجتك على أن أحللك له أو قالت المرأة ذلك أما لو نويا كان مأجورا لأن مجرد النية في المعاملات غير معتبر، وقيل المحلل مأجور، وتأويل اللعن إذا شرط الأجر كذا في البزازية، والمراد بالكراهة كراهة التحريم فينتهض سببا للعقاب لما روى النسائي، والترمذي، وصححه مرفوعا «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم المحلل، والمحلل له» لأنه لو كان فاسدا لما سماه محللا، ولو كان غير مكروه لما لعنه".

(كتاب الطلاق، باب الرجعة، فصل فيما تحل به المطلقة، ج:4، ص:63، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144606101961

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں