میری ایک عزیزہ ہیں، جن کے والدین مسلک حنفی کے پیروکار ہیں، انہوں نے اپنی بیٹی کا رشتہ اہل حدیث مسلک کے ایک نوجوان سے کیا تھا، تقریبًا 18 سال قبل، وہ نوجوان طبیعت کا سخت ہے، آپس میں میاں بیوی میں تقریبًا 18 سال سے مختلف موضوعات کی وجہ سے ناچاقیاں ہی رہی ہیں، غالبًا مسلک کی وجہ سے بھی اختلاف رہا ہے، اس عرصے میں نوجوان اور اس کی بیوی کے خاندان کے بڑوں کی موجودگی میں کئی جھگڑے بھی ہوئے، صلح صفائی اور سمجھانے کی کوشش بھی کی گئی، لیکن ساری کوششیں بے فائدہ ہی رہیں، نوجوان نے کئی مرتبہ طلاق دیں، ابھی 5 ماہ قبل تیسری طلاق دی ہے، آخری اور حتمی طلاق کا پرچہ بھی سوال کے ساتھ منسلک ہے، خاتون اپنے والدین/ ماموں کے گھر چلی گئی ہے، وہ نوجوان اب دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہے، کہتا ہے کہ اب تک دو طلاق ہوئی ہیں،اور یہ کہہ رہا ہے کہ جو کاغذ میں میں نے لکھا ہے وہ غصہ میں لکھا ہے، طلاق خوشی میں تو کوئی نہیں دیتا، غصہ میں ہی دیتا ہے، اب وہ اپنے لکھے ہوۓ کاغذ کے بارے میں کہہ رہا ہے کہ یہ مجھ سے غلطی میں لکھا گیا ہے، جو کہ خلافِ حقیقت ہے، تین موقعوں پر تین دفعہ طلاق دے چکا ہے، جو کہ اس نے خود تحریر کیا ہے، اور اس کے گواہ بھی موجود ہیں۔
براۓ کرم شریعت کی رو سے رہنمائی فرما دیں۔
واضح رہے کہ ایک ساتھ یا ایک ہی مجلس میں یا متفرق طور پر اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمولِ ائمہ اربعہ ( یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک ، حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) سب کے نزدیک تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں آپ کی عزیزہ کے شوہر کا آپ کی عزیزہ کومتفرق طور پر تین طلاقیں الگ الگ دینے سے تینوں طلاق واقع ہوچکی ہیں، چاہے زبانی طور پر دی ہوں یا لکھ کر دی ہوں، غصہ کی حالت میں دی ہو ں یا عام حالت میں،آپ کی عزیزہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہیں، اب رجوع یا دوبارہ نکاح کی گنجائش نہیں۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."
(كتاب الطلاق، ركن الطلاق، ج:3، ص:233، ط:دار الفكر - بيروت)
شرح نووی على مسلم میں ہے:
"وقد اختلف العلماء فيمن قال لامرأته أنت طالق ثلاثا فقال الشافعي ومالك وأبو حنيفة وأحمد وجماهير العلماء من السلف والخلف يقع الثلاث."
(كتاب الطلاق، باب طلاق الثلاث، ج:10، ص:70، ط:دار إحياء التراث العربي - بيروت)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا."
(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1، ص:349، ط:رشيدية)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."
(كتاب الطلاق، الباب السادس، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به، ج:1، ص:473، ط:دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144512101261
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن