بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تین طلاق اوراس سے متعلق متفرق سوالات


سوال

1۔آٹھ محرم الحرام کو میرا اور میری بیوی کا جھگڑا ہوا،اس جھگڑے کی وجہ میری بڑی سالی تھی،جو کہ ہمارے گھر میں کئی دفعہ جھگڑے کی وجہ بن چکی ہے،اور اس دفعہ میرے گریبان پر اس نے ہاتھ ڈالااور گالیاں بھی دیں،لیکن میری بیوی نے اسے کچھ نہیں کہا،بس کھڑی ہوکر سنتی رہی،اس کی وجہ سے میں نےاپنی بیوی کواس  کی بڑی بہن کے سامنے تین طلاقیں دیں اور یہ الفاظ کہے:"باجی میں اس کو طلاق دے رہا ہوں"۔اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس سے طلاق واقع ہوگئی ؟ 

2۔میری شادی کو 15 سال ہوگئے ہیں،میرا ایک 14 سال کا بیٹا بھی ہے،اور یہ اپنی ماں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا،بلکہ میرے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہے،اس کے بارے میں راہ نمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟ 

3۔کیاعدت کےاخراجات کی ادائیگی مجھے کرنی ہوگی یا نہیں؟ابھی وہ اپنے میکے میں ہے۔نیز طلاق کے بعد عورت کا نان ونفقہ  کب تک دینا ہوگا؟

4۔گھر میں بیوی کے جہیز کے سامان کے علاوہ بھی سامان ہے،جو وقتًا فوقتًا ہم خریدتے  رہے ہیں، اب  اس  میں  سے کون کون سا سامان اسے واپس کرنا لازم ہے؟سسرال والے کہتے ہیں کہ شادی کے بعد اب تک جو کچھ ہم لیتے رہےہیں، سب  لڑکی کو واپس کیا جائے؟ اسی طرح جو زیور  وغیرہ بری کے طور پر چڑھایا جاتا ہے،وہ بھی مانگ رہے ہیں،جب کہ اس میں رواج یہ ہے کہ دلہن شوہر کے ساتھ رہے گی تو وہ استعمال کرے گی ورنہ نہیں ؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر آپ نے واقعۃً تین مرتبہ یہ الفاظ کہے ہیں کہ "باجی میں اس کو طلاق دے رہا ہوں"تو اس سےآپ کی بیوی پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،اور وہ آپ پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، نکاح ختم ہوچکاہے،  اب رجوع  یا دوبارہ نکاح کرنا ناجائز اور حرام ہوگا،بیوی اپنی عدت  (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اور اگر حمل ہو تو بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ  نکاح  کرنے  میں آزاد ہوگی۔

2۔واضح رہے کہ میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت میں بچوں کی پرورش،اگر لڑکا ہو تو سات سال کی عمر تک، اور  لڑکی ہو تو نو  سال کی عمر تک ،ان کی والدہ کی ذمہ داری ہوتی ہے،مذکورہ مدت  مکمل ہونے کے بعد والد كو لینے کا حق حاصل ہوتا ہے، تاکہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرسکے ،تاہم بچے جس کی بھی پرورش میں ہو ں،وہ دوسرے سےملاقات کرانے سے نہیں روک سکتا؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں بیٹا آپ کے پاس ہی رہے گا۔

3۔اگر مطلقہ شوہر کے گھر  یا شوہر کی اجازت و رضامندی سے میکے میں عدت گزاررہی ہو تو عدت کانان  نفقہ شوہر پر لازم ہے اور اگر شوہر کی اجازت و رضامندی کے بغیر از خود میکے جاکر عدت گزاررہی ہو تو پھر عدت کانان نفقہ شوہر پر لازم نہیں ۔صورتِ مسئولہ میں اگر وہ آپ کی اجازت ورضامندی سے میکے میں عدت گزاررہی ہے،تو اس کانان ونفقہ آپ کو دینا پڑے گا،اور اگر بلا اجازت میکے میں عدت گزاررہی ہے،توایامِ عدت کا نان ونفقہ آپ کے ذمہ نہیں ۔نیز طلاق کے بعد عورت کا نان ونفقہ عدت مکمل  ہونے تک شوہر کے ذمہ ہوتا ہے،تولہذا جب تک عدت مکمل نہ ہوجائے نان ونفقہ آپ کو دینا ہوگا۔

4۔شادی کے موقع پر جو جہیز لڑکی لے کر آتی ہے وہ ہر حال میں (خواہ طلاق سے پہلے ہو یا طلا ق کے بعد ہو )اسی کی ملکیت ہوتا ہے،اور  جو  سامان شوہر لاتا ہے، وہ شوہر کی ملکیت ہوتا ہے، البتہ جو چیزیں بطورِ تحفہ میاں بیوی یا ان دونوں کے رشتہ دار دیتے ہیں ان پر اسی کی ملکیت ہوتی ہے جس کو تحفہ دیا گیا ہو،اسی طرح لڑکے والوں کی طرف سے  لڑکی کو جو عام  استعمال کی چیزیں (مثلاً کپڑے ، جوتے ، وغیرہ )لڑکی کو  دی جاتی ہیں،  وہ سب لڑکی کی ہی ملکیت ہوتی ہیں۔لہذا صورتِ مسئولہ میں جہیز  کا سامان اورعام  استعمال کی   چیزیں (مثلاً کپڑے ، جوتے ، وغیرہ ) اس کی  بیوی کی ملکیت ہے،اور سائل کے ذمہ  اسے واپس کرنا لازم ہے،البتہ جو گھریلوسامان سائل  وقتًا فوقتًا خریدتا رہا ہے ،وہ اسی  کی ملکیت ہے،اور سائل کے سسرال والوں کا شادی کے بعد سے اب تک خریدے گئےان گھریلو سامان کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

نیز شادی کے موقع پر یعنی بری میں دیے گئے زیورات کے  بارے  میں یہ تفصیل ہے کہ اگرلڑکے  والوں نے صراحت کی تھی  کہ یہ صرف استعمال کے لیے ہیں ،تو پھر یہ لڑکے والوں  کی ملکیت  ہوں گے، اور اگرلڑکے والوں نے ہبہ (گفٹ) اور  مالک بناکر دینے  کی صراحت         کردی تھی،  تو پھر اس  زیورات  کی مالک  لڑکی ہوگی، اور اگر کوئی صراحت  نہیں  کی تھی تو پھر  شوہر کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا،اگر بطورِ ملک دینے کا عرف ہے تو لڑکی مالک ہوگی،   اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھرلڑکے والے ہی مالک ہوں گے،لیکن اگر  شوہر  کے خاندان کا کوئی  عرف اور واضح رواج   نہ ہو تو پھرظاہر کا اعتبار  کرتے  ہوئے یہ  زیورات   گفٹ سمجھے جائیں گے، اور یہ لڑکی کی  ملکیت   ہوں گے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں لڑکی کو زیور وغیرہ دیتے وقت  اگرلڑکے والوں نے  ہبہ (گفٹ)اور مالک بناکر دینے سے متعلق کوئی صراحت نہیں کی تھی ،تو پھرسائل کے خاندان کے عرف ورواج کا اعتبار کرتے ہوئے،جیساکہ سوال سے معلوم ہوتا ہے، مذکورہ زیورات وغیرہ لڑکے والوں کی ملکیت ہے،اور لڑکی والوں کا اسے مانگنا درست نہیں ہے۔

1۔فتاوی شامی میں ہے:

"وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."

(کتاب الطلاق،ج:3،ص:233،ط:سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثًا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيًا" .

(کتاب الطلاق، الطلاق البدعی، ج:1، ص:349، ط:دار الفکر بیروت)

وفیہ ایضا:

"وإن كان الطلاق ثلاثًا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجًا غيره نكاحًا صحيحًا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

( كتاب الطلاق، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به،ج:1،ص:473، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وهي في) حق (حرة) ولو كتابية تحت مسلم (تحيض لطلاق) ولو رجعيا (أو فسخ بجميع أسبابه)....(بعد الدخول حقيقة، أو حكما) أسقطه في الشرح، وجزم بأن قوله الآتي " إن وطئت " راجع للجميع (ثلاث حيض كوامل) لعدم تجزي الحيضة، فالأولى لتعرف براءة الرحم، والثانية لحرمة النكاح، والثالثة لفضيلة الحرية...(و) العدة (في) حق (من لم تحض) حرة أم أم ولد (لصغر) بأن لم تبلغ تسعا (أو كبر).....(ثلاثة أشهر) بالأهلة لو في الغرة وإلا فبالأيام بحر وغيره (إن وطئت) في الكل ولو حكما كالخلوة ولو فاسدة كما مر."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:504-509، ط: سعيد)

وفیہ ایضا:

"(و) في حق (الحامل) مطلقا ولو أمة، أو كتابية، أو من زنا بأن تزوج حبلى من زنا ودخل بها ثم مات، أو طلقها تعتد بالوضع جواهر الفتاوى (وضع) جميع (حملها)."

(كتاب الطلاق، باب العدة، ج:3، ص:511، ط: سعید)

2۔فتاوی عالمگیری میں ہے:

"والأم والجدة أحق بالغلام حتى يستغني وقدر بسبع سنين وقال القدوري حتى يأكل وحده ويشرب وحده ويستنجي وحده وقدره أبو بكر الرازي بتسع سنين والفتوى على الأول والأم والجدة أحق بالجارية حتى تحيض وفي نوادر هشام عن محمد - رحمه الله تعالى - إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق وهذا صحيح هكذا في التبيين"

(کتاب الطلاق،الباب السادس عشر في الحضانة،ج:1،ص:542،ط:دارالفکر بیروت)

فتاوى شامي میں ہے:

"وفي الحاوي: له إخراجه إلى مكان يمكنها أن تبصر ولدها كل يوم كما في جانبها فليحفظ. قلت: وفي السراجية: إذا سقطت حضانة الأم وأخذه الأب لا يجبر على أن يرسله لها، بل هي إذا أرادت أن تراه لا تمنع من ذلك."

وفي الرد:ويؤيده ما في التتارخانية: الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعهده. اهـ."

(كتاب الطلاق، باب النفقۃ، ج:3، ص:571، ط:سعيد)

3۔فتاوی عالمگیری میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة، وإن كانت من جهة المرأة إن كانت بحق لها النفقة، وإن كانت بمعصية لا نفقة لها، وإن كانت بمعنى من جهة غيرها فلها النفقة فللملاعنة النفقة والسكنى والمبانة بالخلع والإيلاء وردة الزوج ومجامعة الزوج أمها تستحق النفقة، وكذا امرأة العنين إذا اختارت الفرقة، وكذا أم الولد والمدبر إذا أعتقا، وهما عند زوجيهما، وقد بوأهما المولى بيتا واختارتا الفرقة، وكذا الصغيرة إذا أدركت اختارت نفسها، وكذا الفرقة لعدم الكفاءة بعد الدخول كذا في الخلاصة"

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الثالث في نفقة المعتدة،ج:1،ص:557،ط:دارالفکر بیروت)

4۔الموسوعة الفقهية میں ہے:

"الجهاز بالفتح، و الكسر لغة قليلة، و هو اسم … لما تزف به المرأة إلى زوجها من متاع ...ذهب جمهور الفقهاء إلى أنه لايجب على المرأة أن تتجهز بمهرها أو بشيء منه، و على الزوج أن يعد لها المنزل بكل ما يحتاج إليه ليكون سكنًا شرعيًّا لائقًا بهما. و إذا تجهزت بنفسها أو جهزها ذووها فالجهاز ملك لها خاص بها."

(‌‌جهاز، ج: 16، ص: 166،165 ط: دار السلاسل)

فتاوی شامی میں ہے:

"(جهز ابنته بجهاز وسلمها ذلك ليس له الاسترداد منها ولا لورثته بعد أن سلمها ذلك وفي صحته) بل تختص به (وبه يفتى)."

(كتاب النكاح، باب المهر،ج:3،ص:155،ط:سعيد)

وفیہ أیضاً:

"كل أحد يعلم الجهاز للمرأة إذا طلقها تأخذه كله، ‌وإذا ‌ماتت ‌يورث ‌عنها."

(كتاب النكاح، باب المهر،ج:3،ص:158،ط:سعيد)

وفیہ أیضاً:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر ولا سيما المسمى صبحة." 

(کتاب النکاح، باب المهر، ج:3،ص:153، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(کتاب النکاح، باب  المهر، ج:3، ص:157، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك،كذا في الفصول  العمادية."     

(کتاب النکاح، باب المهر، الفصل السادس عشر فی جهاز البنت، ج 1، ص 327، ط:دارالفکر بیروت)

دررالحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"الهدايا التي تأتي في الختان أو الزفاف تكون لمن تأتي باسمه من المختون أو العروس أو الوالد والوالدة وإن لم يذكر أنها وردت لمن ولم يمكن السؤال والتحقيق فعلى ذلك يراعى عرف البلدة وعادتها...... بل ترسل على طريق الهبة والتبرع فحكمها كحكم الهبة ولا رجوع بعد الهلاك والاستهلاك والأصل في هذا الباب هو أن المعروف عرفا كالمشروط شرطا."

(الكتاب السابع الهبة، الباب الثاني في بيان احكام الهبة، ج:2، ص:482، ط:دار الجيل)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں