میرے شوہر نے مجھے 2024ء / 7 / 22 کو تین طلاقیں دی ہیں، جس کے الفاظ یہ ہے: "میں نے تمہیں طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی"۔
اب ان طلاقوں کا کیا حکم ہے؟ آیا طلاقیں ہوئی یا نہیں؟ اہلِ حدیث کہتے ہیں کہ ایک طلاق ہوئی ہے۔
میرا چھوٹا بچہ ہےدس سال کا، اور میرے والدین ضعیف ہیں، مجھے گھر کے خرچے کے لیے جاب کرنی پڑے گی، تو عدت کب تک ہے؟ اور اس دوران جاب کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیوں کہ گھر کے خرچے کی وجہ سے میری مجبوری ہے۔
واضح رہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینا خلافِ سنت ہے، ایسا کرنے والا سخت گناہ گارہے، جس کی وجہ سے صدقِ دل سے توبہ واستغفار کرنا چاہیے، تاہم اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دے تو قرآن و حدیث، جمہور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ (یعنی حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی، اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک ایک ساتھ دی جانے والی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں، اس لیے جو حضرات ایک ساتھ دی جانے والی تین طلاقوں کویا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرتے ہیں، یہ صریح گمراہی ہے، اور ان کا یہ قول قرآن و حدیث، جمہور صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور ائمہ مجتہدین بشمول ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے مسلک کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابلِ اعتبار ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں جب سائلہ کے شوہر نے سائلہ کو ایک ساتھ تین طلاقیں ان الفاظ میں دیں: "میں نے تمہیں طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی"، تو اس سے سائلہ پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں، دونوں کے درمیان نکاح ختم ہوچکا ہے، اور سائلہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے، اب نہ تو رجوع کرنا جائز ہے اور نہ ہی دوبارہ نکاح کر کے ساتھ رہنا جائز ہے۔
جب کہ عدت کی مدت کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر سائلہ امید سے ہو (یعنی کہ حاملہ ہو) تو بچے کی پیدائش تک عدت ہے، بچے کی پیدائش ہوتے ہی عدت ختم ہوجائے گی، اور اگر سائلہ حاملہ نہ ہو اور ماہواری آتی ہو تو پھر مکمل تین ماہواریاں عدت ہے، تیسری ماہواری کے بعد عدت ختم ہوجائے گی۔
باقی عدت کے دوران مطلقہ عورت کا نان و نفقہ شوہر پر لازم ہوتا ہے، لیکن اگر شوہر ادا نہیں کرتا، اور واقعۃً سائلہ کی مجبوری ہو اور کمانے والا بھی کوئی نہ ہو، اور نہ ہی خرچے وغیرہ کا کوئی انتظام ہوسکتا ہو، اور نہ ہی رشتہ داروں میں کوئی ایسا ہو جو اس کے خرچے کی ذمہ داری اٹھائے، اور جاب نہ کرنے کی صورت میں تنگ دستی اور معاشی پریشانی کا یقین ہو، تو ایسی صورت میں عدت کے دوران پردے کے اہتمام کے ساتھ دن کے اوقات میں جاب پر جانے کی گنجائش ہوگی، غروب سے پہلے پہلے گھر واپس لوٹنا ضروری ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما البدعي) فنوعان بدعي لمعنى يعود إلى العدد وبدعي لمعنى يعود إلى الوقت (فالذي) يعود إلى العدد أن يطلقها ثلاثا في طهر واحد أو بكلمات متفرقة أو يجمع بين التطليقتين في طهر واحد بكلمة واحدة أو بكلمتين متفرقتين فإذا فعل ذلك وقع الطلاق وكان عاصيا."
(كتاب الطلاق، الباب الأول، ج: 1، ص: 349، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"(والبدعي ثلاث متفرقة.
وفي الرد: (قوله ثلاثة متفرقة) وكذا بكلمة واحدة بالأولى... الي قوله: وذهب جمهور الصحابة والتابعين ومن بعدهم من أئمة المسلمين إلى أنه يقع ثلاث."
(كتاب الطلاق، ج: 3، ص: 233،232، ط: سعید)
عمدۃ القاری میں ہے:
"ومذهب جماهير العلماء من التابعين ومن بعدهم منهم: الأوزاعي والنخعي والثوري وأبو حنيفة وأصحابه ومالك وأصحابه ومالك وأصحابه والشافعي وأصحابه وأحمد وأصحابه، وإسحاق وأبو ثور وأبو عبيد وآخرون كثيرون، علي أن من طلق امرأته ثلاثا وقعن، ولكنه يأثم."
(كتاب الطلاق، باب من أجاز طلاق الثلاث، ج: 20، ص: 331، ط: دار الكتب العلمية)
فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:
"وفي الظهيرية: ومتى كرر لفظ الطلاق بحرف الواو أو بغير حرف الواو يتعدد الطلاق، وإن عنى بالثاني الأول لم يصدق في القضاء، كقوله يا مطلقة أنت طالق... وفي الحاوي: ولو قال ترا يك طلاق يك طلاق يك طلاق! بغير العطف وهي مدخول بها تقع ثلاث تطليقات."
(كتاب الطلاق، الفصل الرابع فيما يرجع إلى صريح الطلاق، نوع آخر: في تكرار الطلاق وإيقاع العدد في المدخولة وغير المدخولة، ج: 3، ص: 212،211، ط: دار احياء التراث العربي)
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله - عز وجل - {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره}، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."
(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 187، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"إذا طلق الرجل امرأته طلاقا بائنا أو رجعيا أو ثلاثا أو وقعت الفرقة بينهما بغير طلاق وهي حرة ممن تحيض فعدتها ثلاثة أقراء... والعدة لمن لم تحض لصغر أو كبر أو بلغت بالسن ولم تحض ثلاثة أشهر... وعدة الحامل أن تضع حملها كذا في الكافي."
(کتاب الطلاق، الباب الثالث عشر فی العدۃ، ج: 1، ص: 528،526، ط: رشيدية)
البحر الرائق میں ہے:
"(قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلا ولا نهارا. والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير."
(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل في الإحداد، ج: 4، ص: 166، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"فإن علم عجزها عن المعيشة إن لم تخرج أفتاها بالحل لا إن علم قدرتها."
(كتاب الطلاق، باب الحضانة، ج: 3، ص: 565، ط: سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601101754
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن