بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

بیوی کو ” تم آزاد ہو“ کہنے کا حکم


سوال

 عرض یہ ہے کہ میری شادی 14 اکتوبر 2022 ہوئی، شادی کے چند دن بعد شوہر نے بار بار طلاق دینے  اور گھر سے نکالنے کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور یہ بات واضح الفاظ میں کہہ دی کہ میں تمہیں طلاق دوں گا۔ شادی کے چھ ماہ بعد میں حمل سے تھی، ان کے تشدد کی وجہ سے مجھے ہسبتال لے جایا گیا، میں یہاں زندگی اور موت کی لڑائی لڑتی ہوئی اپنی اولاد سے بھی محروم ہو ئی، پھر 26 اپریل 2023 کو ہسپتال سے سیدھا مجھے میرے والدین کے گھر لایا گیا، اس کے بعد پھر کبھی میرے شوہر مجھے واپس لینے نہیں آئے،فون کال اور پیغام کے ذریعے وہ مسلسل یہی کہتے رہے کہ وہ طلاق دے کر یہ رشتہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں گے۔ اس تمام عرصے میں ہماری اور ان کی فیملی کے بزرگوں نے ہمارے کہنے پر انہیں رشتہ نبھانے اور گھر بسانے کے لیے پیغامات بھیجے مگر ان کا بار بار یہی جواب تھا کہ وہ گھر نہیں بسانا چاہتے اور طلاق دے دیں  گے۔اس سے ان کی نیت صاف ظاہر ہوتی ہے اور تمام لوگ ان کی نیت کے گواہ بھی ہیں جن کی تعداد 10 سے 12 ہے۔ میری شادی سے لے کر آج تک تقریبا دو سال کے اس تمام عرصہ میں  شرعی قانونی نان ونفقہ میں سے ایک روپیہ بھی میری ذات پر حرام ہے جو انہوں نے مجھے دیا ہو۔ میں سرکاری ملازمت کرتی تھی اور اسی سے اپنا گزارا کرتی تھی۔

اب دو بارہ 02 مارچ2024ء کو مجھے ان کے نمبر سے پیغام لکھا ہوا موصول ہوا، یہ پیغام اس سوال کے ساتھ لف کیے گئے ہیں ،اس میں ان کے الفاظ یہ ہیں” تم میری طرف سے آزاد ہو آزاد ہو آزاد ہو“، پھر مجھے کہا کہ ”میں ویسے بھی تمہیں طلاق دے چکا ہوں “،میں پوچھا کب؟ تو جواباً کہا کہ ” میں فروری 2024 ءمیں طلاق نامے پر دستخط کر چکا ہوں، جو تمہیں جلد مل جائے گا، جاؤ تم اب آزاد ہو، جس خاندان میں مرضی شادی کرو”، البتہ انہوں نے طلاق نامہ نہیں بھیجا ہے۔ اس کے بعد آج پانچ مہینے گزر گئے، میرا ان سے کوئی رابطہ نہیں، ان کے گھر والوں نے بھی مجھ سے کوئی رابطہ کرنے کوشش نہیں کی۔ اب آپ حضرات اس مسئلے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ اسلام کی روح اور شریعت کے مطابق اس  رشتے کی بقاء کی کیا حیثیت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ سائلہ کے شوہر نے 02 مارچ 2024ء کو اسے یہ پیغام بھیجا تھا کہ”تم میری طرف سے آزاد ہو آزاد ہو، آزاد ہو“ تو سائلہ کو ایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی، اب جبکہ عدت کی مدرت بھی گزرچکی ہے  تو سائلہ دوسری جگہ نکاح کے لیے آزاد ہے۔باقی شوہر نےجو طلاق نامہ پر دستخط کیے ہیں اس کا حکم طلاق نامہ دیکھنے پر موقوف ہے کہ اس میں کتنی طلاقیں ہیں اور ان کے الفاظ کیا ہیں، لہذا جب طلاق نامہ حاصل ہوجائے تو اس کو منسلک کر کے دوبارہ معلوم کر لیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو قال في حال مذاكرة الطلاق باينتك أو أبنتك أو أبنت منك أو لا سلطان لي عليك أو سرحتك أو وهبتك لنفسك أو خليت سبيلك أو أنت سائبة أو ‌أنت ‌حرة أو أنت أعلم بشأنك. فقالت: اخترت نفسي. يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء."

(کتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الخامس، ج:1، ص:375، ط: دار الفكر) 

بدائع الصنائع میں ہے:

"فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا." 

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق البائن، ج: 3، ص: 187، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144603100796

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں