بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعہ حصول اولا کے لیے علاج کرنا۔


سوال

میری شادی کو نوسال گزرگیاہے، تاحال اولاد کی نعمت سے محروم ہوں ، گزشتہ نوسالوں سے روحانی سائنسی تمام علاج دونو ں میاں بیوی کرواچکے ہیں ، مگر تاحال کامیابی حاصل نہیں ہوئی، چند ماہ قبل ایک ڈاکٹر نے ہمیں جدید طریقہ علاج آئی وی ایف سے رجوع کیا، دوماہ کے علاج معالجے کے بعد ڈاکٹر اس نتیجے پر پہنچے ہیں ، کہ ہمیں آئی وی ایف (ٹیسٹ ٹیوب بے بی) کا مشورہ دیاہے، ماہر ڈاکٹر نے کہا کہ ہم میاں بیوی جن کی عمر 34 سال ہوگئی ہے، یہ وقت آئی وی ایف (ٹیسٹ ٹیوب بے بی) کے لیے آئیڈیل ہے،اگر مزید دیر کی تو اس میں بھی کامیابی کا امکان ختم ہوجائے گا، اس طریقہ علاج کے دوران ڈاکٹر میرے (شوہر)مادہ منویہ کو میری موجودگی میں میری بیوی کے رحم میں ڈالیں گے، اس دوران بیوی دوائیوں کے زیرِ اثر بے ہوش ہوگی، ڈاکٹر کے مطابق اس طریقہ علاج کے دوران بھی حمل ٹھہرنے کا امکان ٪35فیصد سے ٪40فیصد تک ہے، میں مشترکہ فیملی میں سسٹم میں رہتاہوں ، والدین اور بڑے بھائی کی باہم اجازت سے آپ کو خط لکھاہے۔

کیا شریعت کی روشنی میں اس طریقہ علاج کو اختیار کرنے کی اجازت ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل اور اس کی اہلیہ  میں ٹیسٹ ٹیوب  بے بی کی اجازت صرف اس صورت میں  ہے، کہ کسی ڈاکٹر سے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ کار معلوم کرکےسائل   اپنا مادہ منویہ خود  یا سائل کی بیوی اپنے شوہر(سائل)  کا مادہ منویہ اپنے  رحم میں داخل کرے اور اس میں کسی تیسرے فرد کا بالکل عمل دخل نہ ہو (یعنی کسی مرحلے میں بھی سائل یا اس کی اہلیہ میں سے کسی کا ستر  کسی مرد یا عورت کے سامنے نہ کھلے، نہ ہی  چھوئے) تو اس کی گنجائش ہے ،لہذا اگر سائل  اور اس کی اہلیہ  میں  مذکورہ عمل کے لیے کسی تیسرے شخص کی مدد حاصل کی جائے خواہ وہ لیڈی ڈاکٹر ہی کیو نہ ہو ،  تو یہ عمل شرعًا جائز نہیں ہوگا ، اس لیے کہ اولاد کا حصول ایسا شرعی عذر یا شرعی مجبوری نہیں ہے، جس کے لیے کسی اجنبی کے سامنے اعضاء مستورہ کا دکھانا کھولنا جائز ہو۔

كتاب الاصل لمحمد الشیبانی میں ہے:

"والرجل من الرجل لا ينبغي له أن ينظر منه إلا ما تنظر  منه المرأة. ولا ينبغي له أن ينظر من الرجل إلى ما بين  سرته إلى ركبته ولا بأس بالنظر إلى سرته. ويكره النظر منه إلى ركبته. وكذلك المرأة من المرأة."

(کتاب الاستحسان ،ج:2،ص:237،ط:دار ابن حزم)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"امرأۃ أصابتها قرحة في موضع لايحلّ للرجل أن ينظر إليه لايحلّ أن ينظر إليها، لکن تعلم امرأۃً تداويها، فإن لم يجدوا امرأۃً تداويها، و لا امرأۃ تتعلم ذلك إذا علمت و خيف عليها البلاء أو الوجع أو الہلاك، فإنّه يستر منها کل شيء إلا موضع تلك القرحة، ثمّ يداويها الرجل و يغضّ بصرہ ما استطاع إلا عن ذلك الموضع، و لا فرق في هذا بين ذوات المحارم وغيرهنّ؛ لأنّ النظر إلی العورۃ لايحلّ بسبب المحرمية، کذا في فتاوٰی قاضي خان."

(الباب التاسع في اللبس،ج:5،ص:330،ط:المطبعۃ الکبری الامیریہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101253

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں