بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹھیلوں کو کرایہ پر دینے کی صورت


سوال

ہمارے شہر میں  ٹھیلے کارو بار ہے،ہم سال بھر کے لیے ٹھیلا  (پندرہ سو روپہ ہر  مہینہ )کرایہ پر دیتے ہیں،اورابتداء   بیس ہزار روپے رکھتے ہیں ،سال پورا ہونے کے بعد یہ بیس ہزار روپے واپس کرتے ہیں ،لیکن چوں کہ ہم ٹھیلوں کی نگرانی بھی کرتے ہیں ،اگر ٹائر پنچر ہو گیا تو بھی ٹھیک کرتے ہیں ،اس لیے پورے بیس ہزار واپس نہیں کرتے ہیں، بلکہ ہر ماہ کے تین سو روپےالگ  کٹوتی کر کے واپس کرتے ہیں ،آیا یہ کاروبار درست ہے یا نہیں ؟

جواب

صورت مسئولہ میں  اجارہ کا مذکورہ طریقہ (یعنی ہر ماہ پندرہ سو روپے پر سال بھر کے معاہدہ کے ساتھ ٹھیلا کرایہ پر دینا،اور زر ضمانت (ڈپازت)کے طور پر بیس ہزار روپے لینا)جائز ہے ،لیکن  چوں کہ یہ ٹھیلے سائل ہی کے ہیں ،  اس لیے  ٹائر و  دیگر پرزوں کی درستگی تاکہ ٹھیلے قابل انتفاع بن جائیں  سائل ہی کے ذمہ ہے ،اور حفاظت کا انتظام سائل کی اپنی چیز کے ہی واسطے ہے ،اس لیے زر ضمانت کے واپسی کے وقت ٹھیلوں کی حفاظت اور اور پرزوں کی درستگی وغیرہ کی مد میں  کٹوتی درست نہیں ہے ،پس سائل پر مکمل زر ضمانت بیس ہزار وپے سال کے آخر پر واپس کرنالازم ہے،ہاں اگر سائل کے اخراجات  زیادہ خرچ ہو رہے ہوں اور سائل زیادہ پیسوں کی وصولی چاہتا ہے تو ابتدا ہی سے کرایے کی مد میں اٹھارہ سو روپے وصول کر لے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، والأول إما بالتعدي أو لا. والثاني إما أن يمكن الاحتراز عنه أو لا، ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقا. وفي ثاني الثاني لا يضمن اتفاقا وفي أوله لا يضمن عند الإمام مطلقا ويضمن عندهما مطلقا."

(کتاب الاجارۃ،باب ضمان الاجیر،ج:6،ص:65،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(أو أرضا بشرط أن يثنيها) أي يحرثها (أو يكري أنهارها) العظام أو يسرقنها) لبقاء أثر هذه الأفعال لرب الأرض، فلو لم تبق لم تفسد  وفي المنح إن كان المراد أن يردها مكروبة فلا شك في فساده، وإلا فإن كانت الأرض لا تخرج الريع إلا بالكراب مرتين لا يفسد وإن مما تخرج بدونه، فإن كان أثره يبقى بعد انتهاء العقد يفسد؛ لأن فيه منفعة لرب الأرض وإلا فلا اهـ ملخصا."

(کتاب الاجارۃ،باب الاجارۃ الفاسدۃ،ج:6،ص:59،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"أفاد أن ركنها الإيجاب والقبول.وشرطها كون الأجرة والمنفعة معلومتين؛ لأن جهالتهما تفضي إلى المنازعة."

(کتاب الاجارۃ،ج:6،ص:5،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وللمؤجر طلب الأجر للدار والأرض) كل يوم (وللدابة كل مرحلة) إذا أطلقه."

(کتاب الاجارۃ،ج:6،ص:14،ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"كتاب الرهن :مناسبته أن كلا من الرهن والصيد سبب لتحصيل المال.(هو) لغة: حبس الشئ.وشرعا: (حبس الشئ مالي) أي جعله محبوسا لان الحابس هو المرتهن (بحق يمكن استيفاؤه) أي أخذه (منه) كلا أو بعضا كأن كان قيمة المرهون أقل من الدين (كالدين) كاف الاستقصاء لان العين لا يمكن استيفاؤها من الرهن إلا إذا صار دينا حكما كما سيجئ (حقيقة) وهو دين واجب ظاهرا وباطنا أو ظاهرا فقط كثمن عبد أو خل وجد حرا أوخمرا (أو حكما) كالاعيان المضمونة بالمثل أو القيمة (كما سيجئ) كونه."

(كتاب الرهن،ج:6،ص:488،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102438

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں