میری شادی دسمبر 2024میں ہوئی تھی، جس کے بعد سے لے کر اب تک ہمارے درمیان ازدواجی رشتہ یا باہمی ملاپ و جماع نہیں ہوسکا، پہلے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، سب کچھ تو معمول کے مطابق چل رہا تھا میرے ساتھ ، پھر میں نے اپنے دوستوں کے مشورے کے مطا بق گھریلو ٹوٹکے اور حکیمی علاج بھی کافی کر کے دیکھا، لیکن کچھ افاقہ نہیں ہوا، تنگ آ کر میں نے اپنا جدید میڈیکل معائنہ بھی کروایا تو معلوم ہوا کہ میرے ساتھ مردانہ کمزوری کے بہت زیادہ مسائل ہیں اور میری رپورٹ میں مردانہ کمزوری کا علم ہوا ہے، جس کی وجہ ڈاکٹر نے ذیابیطس اور معاشرتی تناؤ بتلایا ہے۔ اس لیے اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اپنی زوجہ کی زندگی خراب نہیں کرسکتا، کیوں کہ میری زوجہ کی جنسی خواہشات بہت زیادہ ہیں، جن کے پورے نہ ہونےسے ہمارے درمیان بہت تنازعات رہتے ہیں جس کی وجہ سے میں بھی بہت زیادہ ذہنی الجھاؤ کا شکار ہوں ، ان ہی ازدواجی معاملات کے باعث میری زوجہ نے خودکشی کی بھی بھرپور کوشش کی ہے اور اب حال یہ ہے کہ ہر چھوٹی چھوٹی بات پر بھی لڑائی ہونے لگی ہے، زندگی الجھ کر رہ گئی ہے، اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہم دونوں ہی ذہنی مریض ہوجائیں گے ، ہم دونو ں ایک دوسرے کے دل سے اترچکے ہیں ، اب میں مزید اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا، مہربانی فرما کر میری راہ نمائی فرمائیں، نیز مہر کی ادائیگی پر بھی روشنی ڈالیں ۔
واضح رہے کہ زوجین کے مابین اگر کسی شرعی عذر کے باعث نباہ ممکن نہ ہو تو شریعت نے اس مجبوری کی حالت میں نکاح کے بندھن سے خلاصی کے لیے طلاق کا راستہ رکھا ہے ؛ لہذا صورت مسئولہ میں سائل اگر واقعی طبی مسائل کے باعث حقوق زوجیت ادا کرنے سے قاصر ہے اور ساتھ رہنے میں ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی کا یقین ہے، آپس میں صلح و نباہ کا کوئی امکان بھی نہیں ہے تو اس صورت میں سائل کے لیے بیوی کو لٹکائے رکھنا شرعا درست نہیں ہوگا، پس سائل کو چاہیے کہ اپنی بیوی کوپاکی کی حالت میں ایک طلاق رجعی دے دے، اور اس کے بعد اس سے رجوع نہ کرے، یہاں تک کے مطلقہ بیوی کی عدت مکمل تین ماہواریاں گزر جائیں، تکمیل عدت کے بعد مذکورہ خاتون سائل کے نکاح سے آزاد ہوجائے گی، اور اس کے لیے کسی اورسے نکاح کرنا جائز ہوگا۔نیز سائل نے اگر اب تک مہر ادا نہیں کیا تو طلاق دینے کی صورت میں مکمل مہر ادا کرنا سائل پر لازم ہوگا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية."
( کتاب الطلاق،الفصل الأول فی شرائط الخلع: ج:1، ص:488، ط:رشیدیه)
رد المحتار میں ہے :
"وفي القهستاني عن شرح الطحاوي: السنة إذا وقع بين الزوجين اختلاف أن يجتمع أهلهما ليصلحوا بينهما، فإن لم يصطلحا جاز الطلاق والخلع."
(كتاب الطلاق، باب الخلع، ج:3، ص:441، ط: سعید)
تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :
"(والخلوة) ... (كالوطء) فيما يجيء (ولو) كان الزوج (مجبوبا أو عنينا أو خصيا) ... (و) في (تأكد المهر) المسمى (و) مهر المثل بلا تسمية."
(کتاب النکاح، باب المھر، ج:3، ص:114-118، ط: سعید)
فقط و الله اعلم
فتوی نمبر : 144609102461
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن