بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹک ٹاک سے پیسے کمانا کا حکم


سوال

 آج کل ایک موبائل ایپ ہے جس کا نام ٹک ٹاک ہے ،بہت سے لوگ اس کے ذریعے لائیو آتے ہیں اور پیسے کماتے ہیں ،یہ لائیو سے کمانے والے پیسے جائز ہیں  یا نا جائز ؟

جواب

ٹک ٹاک (Tik Tok ) سے متعلق  جو معلومات دست یاب ہوئی ہیں، ان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ  ٹک ٹاک (Tik Tok ) دورِ حاضر میں بڑھتا ہوا سوشل میڈیا کا ایک انتہائی خطرناک فتنہ ہے، اس ایپ کا شرعی نقطہ نظر سے استعمال قطعاً حرام اور ناجائز ہے، اس کے چند مفاسد درج ذیل ہیں:

1۔۔ اس میں جان دار کی تصویر سازی اور ویڈیو سازی  ہوتی ہے، جو شرعاً حرام ہے۔

2۔۔اس میں عورتیں انتہائی بے ہودہ ویڈیو بناکر پھیلاتی  ہیں۔

3۔۔ نامحرم کو دیکھنے کا گناہ۔

4۔۔ میوزک اور گانے کا عام استعمال ہے۔

5۔۔ مرد وزن  ناچ گانے پر مشتمل ویڈیو بناتے ہیں۔

6۔۔ فحاشی اور عریانی پھیلانے کا ذریعہ ہے۔

7۔۔ وقت کا ضیاع ہے، اور لہو لعب ہے۔

8۔۔ علماء اور مذہب کے مذاق اور استہزا  پر مشتمل ویڈیو اس میں موجود ہیں۔ بلکہ ہر چیز کا مذاق اور استہزا  کیا جاتا ہے۔

9۔۔ نوجوان بلکہ بوڑھے بھی پیسے کمانے کے چکر میں طرح طرح کی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جنہیں کوئی سلیم الطبع شخص گوارا  تک نہ کرے۔

یہ سب شرعاً ناجائز امور ہیں، لہذا کسی بھی مقصد کے لیے اس ایپلی کیشن کا استعمال جائز نہیں ہے، اور اس ایپ کے ذریعے پیسے کمانا چاہے لائیو  ہو تب بھی ناجائز اور حرام ہے۔

مسلمانوں کے اندر فحاشی ، عریانی، بد  تہذیبی پھیلانے، اور انہیں اپنے دین سے دوری کے لیے اغیار اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں، مسلمانوں کو ان فتنوں کو سمجھنا چاہیے، اور اس ایپلی کیشن کا مکمل بائیکاٹ کرنا چاہیے، اس کی کسی بھی ویڈیو کو آگے شئیر کرنے سے مکمل اجتناب کرنا لازم ہے۔

بعض اطلاعات کے مطابق مختلف ممالک میں دین دار طبقوں نے اس پر پابندی کا بھی مطالبہ کیا ہے، ان کا یہ مطالبہ بجا ہے، تمام مسلم ممالک  کے عوام کو اس کا مطالبہ کرنا چاہیے، اور اسلامی مملکت کے سربراہان کو اپنے نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہونے سے بچانے کے لیے حکومتی سطح پر اس ایپلی کیشن پر پابندی لگانی چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے :

"وظاهر کلام النووي في شرح مسلم الاجماع علي تحریم تصویر الحیوان، وقال: وسواء صنعه لما یمتھن او لغیرہ ، فصنعته حرام بکل حال، لان فیه مضاهاۃ لخلق اللہ تعالیٰ وسواء کان في ثوب او بساط او درهم واناء وحائط وغیرھا اھ  فینبغي ان یکون حراما لا مکروھا ان ثبت الاجماع او قطعیة الدلیل بتواترۃ  اھ کلام البحر ملخصا".

(کتاب الصلاۃ ، باب ما یفسد الصلاۃ ، وما یکرہ ، ۲/ ۵۰۲ط: رشیدیہ )

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144510101789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں