میری تین بیٹیا ں ہیں، ان میں دو جڑ وا ں ہیں جن کی عمر سات سال دس ماہ ہے،جب کہ تیسری بیٹی کی عمر پانچ سال سا ت ماہ ہے۔اور میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے ۔
میرا سوال یہ ہے کہ:
میری بیٹیا ں اپنی والدہ کے ساتھ رہیں گے یا میرے ساتھ ؟اگر والدہ کے ساتھ رہنے کا شریعت نے حق دیا ہے تو ان کاخرچہ کس کے ذمے ہے؟اوروہ کتنی عمر تک اپنی ماں کےپاس رہیں گے؟
واضح رہے کہ میاں بیوی میں علیحدگی کی صورت میں سات سال سے کم عمر بیٹوں اور نوسال سے کم عمر بیٹیوں کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہوتا ہے، لہٰذا صورت مسؤلہ میں سائل کی بیٹیوں کی عمر جب تک نو سال مکمل نہ ہو جائے،ماں انہیں اپنی پرورش میں رکھنے کی شرعا حقدار ہو گی ،البتہ اس عرصہ میں اگر اس نے کسی ایسے شخص سے نکاح کر لیا، جو بچیوں کے محارم میں شامل نہ ہو ،تو ماں بچیوں کی پرورش کےحق سے محروم ہو جائے گی، پھر نو سال کی عمر مکمل ہونے تک پرورش کا حق بچیوں کی نانی کو حاصل ہوگا،نانی اگر حیات نہ ہوں ،تو پرورش کی ذمہ داری بچیوں کی دادی کی ہوگی،مذکورہ عمر مکمل ہونے کےبعدبچیوں کی تربیت کی ذمہ داری والد کی ہوگی، البتہ اگر والد نو سال عمر مکمل ہونے کے باوجود بچیوں کو ان کی والدہ کے پاس چھوڑنےپر راضی ہو، تو ایسا کرنےکی اسےاجازت ہوگی،بہر صورت سائل کی بیٹیاں والد،والدہ میں سے جس کےساتھ رہیں،ان کی شادی تک کے تمام اخرجات کی ذمہ داری سائل کی ہوگی،پس اپنی حیثیت و مالی استطاعت کے بقدر سائل پر ان کے اخراجات اٹھانا شرعًا لازم ہوگا۔
نیز بچیاں چاہے والدہ کے پاس رہیں یا والدکے پاس بہر صورت والدین کو اپنی اولادسے ملنےکی اجازت ہوگی،کسی ایک فریق کے لیے دوسرے فریق بیٹیوں سے ملاقات کرنے سے منع کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما بيان من له الحضانة، فالحضانة تكون للنساء في وقت، وتكون للرجال في وقت، والأصل فيها النساء؛ لأنهنّ أشفق وأرفق وأهدى إلى تربية الصغار، ثم تصرف إلى الرجال؛ لأنهم على الحماية والصيانة وإقامة مصالح الصغار أقدر."
(كتاب الحضانة، وأما بيان من له الحضانة، ج:8 ص:234، ط: دار الکتب العلمیة)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"أحق الناس بحضانة الصغير حال قيام النكاح أو بعد الفرقة الأم إلا أن تكون مرتدةً أو فاجرةً غير مأمونة، كذا في الكافي. سواء لحقت المرتدة بدار الحرب أم لا، فإن تابت فهي أحق به، كذا في البحر الرائق. وكذا لو كانت سارقةً أو مغنيةً أو نائحةً فلا حق لها، هكذا في النهر الفائق."
(کتاب الطلاق، الباب السادس عشر في الحضانة، ج:1 ص:541 ط: رشیدیة)
و فیہ ایضاً:
"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد، كذا في الجوهرة النيرة."
(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ج:1 ص:560 ط: رشیدیة)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"الولد متى كان عند أحد الأبوين لا يمنع الآخر عن النظر إليه وعن تعاهده كذا في التتارخانية ناقلا عن الحاوي."
(کتاب الطلاق ،الباب السادس عشر فی الحضانة ،ج:1، ص:543، ط: رشيدية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101625
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن