بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ٹوٹا ہوا برتن استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

ٹوٹا ہوا برتن استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ٹوٹے ہوئے برتن کے استعمال کرنے کی چند صورتیں ہیں:

1۔ اگر برتن پیالہ یا گلاس ہے، اور اس کا کنارہ ٹوٹا ہوا ہے تو ٹوٹی جگہ سے منہ لگا کر استعمال کرنا منع ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ کی ٹوٹی جگہ سے پانی پینے سے منع کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر شفقت اور مہربانی فرماتے ہوئے یہ حکم دیا ہے، کیوں کہ اس جگہ سے منہ لگا کر استعمال کرنے سے ہونٹ زخمی ہوسکتے ہیں، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس ٹوٹی جگہ پانی بہہ کر چہرے اور کپڑوں پر گرجائے، نیز ٹوٹی جگہ پر گندگی جمع ہوجاتی ہے اور مکمل صفائی حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا، ان وجوہات کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو ٹوٹے برتن سے منہ لگا کر پانی پینے سے منع کیا ہے۔

2۔ پیالہ یا گلاس کا جو حصہ ٹوٹا نہیں، اس جگہ سے اسے استعمال کرنے کی گنجائش ہے۔

3۔ اگر برتن ایسا ہے جسے منہ لگائے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے  تو اس کے استعمال میں کراہت نہیں۔

4۔ اگر ٹوٹے ہوئے برتن کے علاوہ کوئی دوسرا برتن نہ ہو تو اسے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

5۔ اگر ٹوٹا ہوا برتن اصلاح و مرمت کے بعد قابل استعمال ہو تو اصلاح کے بعد استعمال کی گنجائش ہے۔

6۔ جو برتن کنارے سے نہ ٹوٹا ہو درمیان میں بال آگیا یا کچھ ٹوٹ گیا اس کا حکم یہ ہے کہ اگر اس کی وجہ سے صفائی کا اہتمام نہ ہوسکتا ہو یا نقصان کا اندیشہ ہو تو اسے استعمال نہ کرنا بہتر ہوگا، بصورتِ دیگر کنارہ ٹوٹے برتن کے مقابلے میں اسے استعمال کرنے میں حکم کے اعتبار سے سہولت ہوگی۔

واضح رہے کہ حدیث شریف میں مذکور ممانعت کا مطلب ناجائز ہونا نہیں ہے، بلکہ ناپسندیدہ ہونا ہے، جس کی وجوہات بیان ہوچکی ہیں، لہذا اگر بوجہ مجبوری ٹوٹا ہوا برتن استعمال کیا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن أنس بن مالك رضي الله عنه: «أن قدح النبي صلى الله عليه وسلم انكسر، فاتخذ مكان الشعب سلسلة من فضة. قال عاصم: ‌رأيت ‌القدح وشربت فيه.»."

(کتاب فرض الخمس، ‌‌باب ما ذكر من درع النبي صلی الله عليه وسلم، ج: 4، ص: 83، رقم: 3109، ط: دار طوق النجاة - بيروت)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

" (وعنه) : أي عن أبي سعيد - رضي الله تعالى عنه - (قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الشرب من ‌ثلمة ‌القدح) : بضم المثلثة وسكون اللام هي موضع الكسر منه. قال الخطابي: إنما نهى عن الشرب من ‌ثلمة ‌القدح ; لأنها لا تتماسك عليها شفة الشارب، فإنه إذا شرب منها ينصب الماء ويسيل على وجهه وثوبه. زاد ابن الملك: أو لأن موضعها لا يناله التنظيف التام عند غسل الإناء (وأن ينفخ) : بصيغة المجهول أي وعن النفخ (في الشراب. رواه أبو داود) . وكذا أحمد والحاكم."

(كتاب الأطعمة، باب الأشربة، ج: 7، ص: 2753، ط: دار الفكر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601100209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں