بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ٹوٹے ہوۓ بالوں کا حکم


سوال

اگر کسی کے پاس بالوں کو مٹی میں ڈالنے کی جگہ نہیں ہو،  اور نہ ہی وہ سمندر میں جاکر بہاسکتی ہو،  تو کیا ٹشو میں کاٹ کر ڈال کے پھینکا جاسکتا ہے ؟ نیز  کسی جگہ دفناتے ہیں تو ڈر ہوتا ہے کہ غلط قسم کے لوگوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں،   جیسا کہ سنا گیا ہے کہ آج کل بالوں کے ذریعے مختلف جادو کیے جاتے ہیں ۔  رہنمائی فرمادیجیے ، ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت نے  بالوں کو مٹی میں دفنانے کا حکم دیا ہے، تاہم اگر کسی کے پاس  دفنانے کی کوئی مناسب جگہ بھی نہیں ہے تو وہ   بالوں کو  ٹکڑے ٹکڑے کر کے کسی کپڑے میں ڈال کر کسی ایسی جگہ میں ڈال دے جہاں کسی نامحرم کی نظر نہ پڑے۔

حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح میں ہے:

"و في الخانية: ينبغي أن يدفن قلامة ظفره و محلوق شعره و إن رماه فلا بأس و كره إلقاؤه في كنيف أو مغتسل لأن ذلك يورث داء و روي أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بدفن الشعر و الظفر و قال: لاتتغلب به سحرة بني آدم اهـ و لأنهما من أجزاء الآدمي فتحترم."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ص:527، دار الكتب العلمية)

 فتاوی محمودیہ میں ہے:

"بال اورناخن کو جلانا جائز نہیں، ایسی عورتیں جو دفن نہیں کرسکتیں وہ کسی کپڑے یا کاغذ میں لپیٹ کر کہیں ڈال دیں، لیکن بالوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیں۔"

(فتاوی محمودیہ ج:۱۹،  ص:۴۵۲، جامعہ فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100302

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں