1- ہمارے علاقے "تلی سیدان" ضلع تورغر، میں بعض حضرات نے کچھ عرصے سے جمعہ شروع کیا ہے، اس حوالے سے مقامی علماء کے دو مختلف موقف ہیں، جو درج ذیل ہیں:
ضلع تور غر میں ایک پہاڑی علاقہ "تلی سیدان" ہے، جو مشکوٹ سے پیزہ تک آٹھ سے دس کلو میٹر پر محیط ہے، یہ کسی ایک مخصوص گاؤں کا نام نہیں ہے، تلی سیدان کے اس علاقے میں تقریباً 15 گاؤں آباد ہیں، ہر ایک کا نام الگ ہے، مسجد الگ ہے ،بعض میں ایک سے زیادہ مسجدیں ہیں،ان گاؤں اور بستیوں کے نام یہ ہیں : مشکوٹ ، کنڈ ، چم ،چپڑہ ،شنگوڑہ، شنئم گورگورہ،پیزہ ، وغیرہ ، ان میں سے کچھ گاؤں نسبتًا بڑے ہیں ،لیکن کچھ بالکل ہی چھوٹے اور چند گھروں پر مشتمل ہیں، اور یہ گاؤں ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع ہیں، یہ فاصلہ کسی جگہ کم اور کسی جگہ زیادہ ہے اور کہیں کھیت کی شکل میں ہے اور کہیں خالی زمین یا وادی (خوَڑ) وغیرہ کی شکل میں ہے، شادی بیاہ اور خیرات کی دعوت گھر گھر جاکر نہیں دی جاتی، بلکہ اسی علاقے کی مرکزی مسجد میں لگے لاؤڈ اسپیکر سے اعلان کیا جاتا ہے ، چند گاؤں اور بستیوں کے درمیان فاصلوں اور گھروں کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
مرکزی گاؤں چپڑہ ہے، جس میں چالیس گھر ہیں جن میں سے چار ، پانچ ایک جگہ ہیں، جب کہ باقی منتشر ہیں، چپڑے سے مغرب کی طرف ایک کلو میٹر گاؤں شنگوڑہ واقع ہے، اس کے دس گھر متصل ہیں، جب کہ باقی منتشر ہیں ،شنگوڑہ والوں کی غم کمیٹی الگ ہے ، چپڑے سے مشرق کی طرف گاؤں شنئی ہے جس میں پندرہ گھر ہیں اور شنئی بالا میں بھی تقریبًا پندرہ گھر ہیں ،شنئی کا آخری گھر چیڑے سے روڈ پر دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور ملیاڑ روڈ کے ذریعے چپڑے سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ، شنئی کے دائیں طرف ملیاڑ گاؤں ہے جو کہ دس گھروں پر مشتمل ہے، چپڑے سے جنوب کی طرف گاؤں کنڈ ہے جو کہ تیس گھروں پر مشتمل ہے اور چپڑے سے سات سو میٹر کے فاصلے پر ہے ،تلی بالا کا سب سے بڑا گاؤں مشکوٹ ہے، جو کہ چالیس گھروں پر مشتمل ہے اور چپڑے سے ایک کلو میٹر سے زیادہ فاصلے پر شمال کی طرف واقع ہے، گاؤں مشکوٹ آبادی کے لحاظ سے تین حصے ہیں اور غم کمیٹی بھی الگ ہے ، مشکوٹ سے جنوب کی طرف گاؤں "رڑ" ہے جو کہ سات گھروں پر مشتمل ہے، اس گاؤں کی غم کمیٹی الگ ہے، مشکوٹ سے مغرب کی طرف گاؤں "گورگورہ" واقع ہے جو منتشر آبادی پر مشتمل ہے،سوائے چار گھروں کے باقی ایک دوسرے سے تقریبًا سو میٹر سے زیادہ کے فاصلے پر ہیں، اس گاؤں کی بیس گھروں کی کمیٹی اپنی ہے، "گورگورہ" کی مسجد چپڑہ مرکز سے تقریبًا ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، گورگورہ سے مغرب کی طرف گاؤں پیزہ ہے، اس کی آبادی بھی منتشر ہے، سوائے چار ، پانچ گھروں کے، "پیزہ" کا آخری گھر چپڑہ سے ایک کلو میٹر سے زیادہ فاصلے پر ہے۔
آبادی یعنی افراد کی تفصیل:
شنئی ، ملیاڑ ،شنگوڑہ، جبہ: 60 5افراد
گھڑی ،بانڈہ، چم ، کنڈ، نظامو،چپڑہ:668 افراد
مشکوٹ، رڑ:319 افراد
گورگورہ، پیزہ:475 افراد
تلی سیدان کے مجموعی طور پر تمام علاقے میں تین سو پچاس گھر ہیں، اور دو سے ڈھائی ہزار تک نفوس پر مشتمل آبادی ہے، تلی سیدان کے علاقے میں چار میڈیکل اسٹور ،ایک آٹا چکی، لوہار اور بڑھئی کی ایک ایک دکان ، کپڑے اور درزی کی دو دو دکانیں ، حجام کی تین دکانیں ہیں ، یہ دکانیں دو جگہوں پر تین تین ایک ساتھ ہیں، جب کہ باقی ایک دوسرے سے الگ اور فاصلے پر واقع ہیں ، ان دکانوں سے اکثر اوقات دالیں ، ڈالڈا ، کوکنگ آئل ، بچوں کی ٹافیاں وغیرہ ،کولڈ ڈرنک ، اسٹیشنری کا سامان ،کیلیں ،تالے وغیرہ، انڈے ، زندہ مرغی اور سبزی ملتی ہے، اور مرغی اکثر اوقات مل جاتی ہے، بعض وقت دودھ نہیں ملتا، دودھ ، دہی اور چھوٹے بڑے گوشت کی دکانیں نہیں ہیں اور نہ ہی عام دنوں میں گوشت ملتا ہے، باقاعدہ بیکری کی دکانیں موجود نہیں، البتہ بیکری کی بعض چیزیں بسکٹ ، نمکو، ملک پیک کریانہ کی دکانوں سےاکثر مل جاتی ہے ، نیٹ موبائل ایزی لوڈ کی سہولت موجود ہے ، اس کے علاوہ بچوں اور بچیوں کے لیے پانچ پرائمری اسکول ایک گرلز مڈل اسکول ،ایک بوائے ہائی اسکول ، تین مدرسے اور سرکاری ڈسپنسری موجود ہے،ا ور ویلج کونسل آفس علاقے کی مرکزی جگہ موجود ہے اور پورے علاقے میں بجلی، بینک، پوسٹ آفس ،تھانہ ، پیٹرول پمپ ،ٹائر پنکچر شاپ ،ایم بی بی ایس ڈاکٹر ،لیڈی ڈاکٹر ، عدالت ، مسافر خانہ اور ہوٹل وغیرہ موجود نہیں ہے، پہاڑ کی چوٹی پر پولیس کی چوکی ہے ، جس میں عملہ موجود رہتا ہے۔
نیز تلی سیدان کے علاقے میں گانگھٹ اور شوکاٹئی کے نام سے بھی دو الگ الگ گاؤں ہیں، جن میں سے گانگھٹ میں کل افراد تقریبًا پانچ یا ساڑھے پانچ سو ہوں گے اور شوکاٹئی میں بھی ساڑھے پانچ یا چھ سو ہوں گے، آس پاس کے چھوٹے دیہاتوں کو ملاکر اور دونوں گاؤں کے درمیان کافی فاصلہ ہے، درمیان میں پانی کی نہر بھی ہے اور کھیتیاں بھی ہیں۔
ہمارا گاؤں "تلی سیدان" واقع تور غر مشکوٹ تاکنڈ مختلف محلہ جات پر مشتمل ہے ، اس گاؤں کی ٹوٹل آبادی 350 گھرانوں پر مشتمل ہے جو کہ بشمول خواتین اور بچوں کے تقریبًا 2800 افراد بنتے ہیں، ہر محلے کا اپنا الگ نام اور الگ مسجد ہے، مگر عرف میں تمام ایک ہی گاؤں تلی سیدان کہلاتی ہے ، مشکوٹ تاکنڈ مختلف محلہ جات چوں کہ علیحدہ علیحدہ ناموں سے ہیں، مگر ان سب پر تلی سیدان کا اطلاق ہوتا ہے، شادی بیاہ اور خیرات کی دعوت گھر گھر جاکر نہیں دی جاتی، بلکہ اسی گاؤں کے مرکزی مسجد میں نصب لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کیا جاتا ہے ، اس لحا ظ سے پورا علاقہ ایک ہی شمار ہوتا ہے، علاقے کی مرکزی جامع مسجد میں بیک وقت علاقے کے تمام لوگ (نمازی) اگر آجائیں تو اس مسجد میں نہیں آسکتے ، کیوں کہ جگہ کم پڑجاتی ہے،اس گاؤں کی واحد سڑک جو کہ اس علاقے کو اوگی بازار ،ضلع مانسہرہ سے ملاتی ہے وہ اوگی سے تلی پولیس چوکی تک پختہ ہے ، اور چوکی سے تلی سیدان کی آبادی تک 4 کلو میٹر روڈ کچا ہے، جب کہ دو کلو میٹر روڈ جو کہ آبادی کے اندر ہے وہ بھی پختہ ہے، علاقے کے اکثر راستے بھی پکے سیمنٹ کی ہے۔
پہاڑ کی چوٹی پر پولیس چوکی موجود ہے جس کا عملہ دن یا رات کسی بھی معاملے میں علاقے کے اندر مداخلت کرسکتے ہیں، روزانہ صبح (سوائے جمعہ کے) علاقے کی تین ،چار جیپیں اوگی بازار جاتی ہیں ، جو کہ تقریبًا پینتس کلو میٹر فاصلے پر ہے، اور شام کو سودا سلف وغیرہ لاتی ہے، اگر صبح یہی جیپیں چلی جائیں تو پھر ضرورت کے وقت گاؤں میں موجود ایک دو گاڑیو ں کو بک کرنا پڑتا ہے یا پھر اوگی بازار سے منگوانی پڑتی ہے۔
اس گاؤں میں فی الحال بجلی ، بینک ، پوسٹ آفس ، تھانہ ، قصاب کی دکان ،پیٹرول پمپ ، ویلڈنگ ورکس ، ٹائر پنکچر شاپ، فوٹوسٹیٹ کی دکان ، ایمبولینس ،ایم بی بی ایس ڈاکٹر، کچہری عدالت ، لیڈی ڈاکٹر، عملًا پٹواری نظام ، مسافر خانہ اور ہوٹل کی سہولت میسر نہیں ہے، اگر باہر سے کوئی مسافر آجائے تو کسی حجرے یا مسجد میں رات گزارے گا، نیز دودھ ،دہی کی دکان بھی نہیں ہے، بیکری بھی موجود نہیں ہے،البتہ بیکری کے بعض آئٹم مثلًا بسکٹ ، نمکو، ملک پیک ڈبوں کی صورت میں اکثر اوقات کریانہ کی دکان سے مل جاتی ہے،اس گاؤں میں چار میڈیکل اسٹور، تین حجام کی دکانیں ، دو کپڑو ں کی دکانیں، دو درزی کی دکانیں ، ایک آٹا چکی ، ایک موچی کی دکان ، ایک لوہار کی دکان ایک بڑھئی کی دکان اور پانچ عدد کریانہ دکانیں ہیں، جس سے اکثر اوقات آٹا، دالیں ، ڈالڈا ، کوکنگ آئل ، بچوں کے کھانے پینے کی چیزیں ٹافیاں وغیرہ ،کولڈ ڈرنکس ، اسٹیشنری کا سامان ،کیلیں ، تالے ، قبضے وغیرہ ، انڈے ، سبزی ، زندہ مرغی مل جاتی ہے، بڑا گوشت نہیں ملتا، نیٹ ، موبائل ایزی لوڈ ، ایزی پیسہ کی سہولت موجود ہے ، اس کے علاوہ بچے اور بچیوں کے لیے پانچ عدد پرائمری اسکول ،ایک گرلز مڈل اسکول ، ایک بوائیز ہائی اسکول موجود ہے، نیز سرکاری ڈسپنسری اور ولیج کونسل آفس بھی اس گاؤں کے مرکز میں موجود ہے۔ ان محلہ جات میں ٹوٹل 14 مساجد اور 3 مدرسے ہیں جس میں بچے دینی تعلیم حاصل کرہے ہیں ، یعنی حفظ و ناظرہ کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ:
ان دونوں موقف کے پیشِ نظر مذکورہ علاقے میں شرعًا جمعے کے قیام کا کیا حکم ہے؟ ملحوظ رہے کہ مذکورہ علاقے میں پہلے سے جمعہ قائم نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ حال میں ہی شروع ہوا ہے، جس کی بنا پر علاقے کے لوگوں میں تشویش پائی جارہی ہے۔
2- اسی مسئلے سے متعلق جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی کے دار الافتاء سے ایک فتویٰ جاری ہوا ہے، جس کا نمبر 144602100116 ہے، اس کی تصدیق بھی مطلوب ہے۔
1- سوال میں ذکر کردہ دونوں موقف سامنے رکھ کر ، مشاہدہ و تحقیق کے بعد جامعہ کے دار الافتاء کی رائے یہ ہے کہمذکورہ علاقے میں جمعے کا قیام درست نہیں ہے، جمعے کی بجائے ظہر کی نماز باجماعت ادا کی جائے، وجوہات درج ذیل ہیں:
1- فریقین کے درمیان نزاع کی بنیاد یہ ہے کہ پہلا فریق تلی سیدان کو ایک علاقہ قراردیتا ہے اورمختلف ناموں سے موسوم آبادیوں کو الگ الگ گاؤں قرار دیتا ہے۔ جب کہ دوسرا فریق تلی سیدان کوایک گاؤں قراردیتا ہے اور اس کے مختلف ناموں سے موسوم آبادیوں کو اس کے محلے قراردیتا ہے۔ تاہم وہاں کی کل آبادی اور دستیاب سہولیات کے بارے میں فریقین کی طرف سے دی گئی معلومات میں زیادہ فرق نہیں ہے۔
2- تلی سیدان کی متفرق آبادیوں میں آپس میں معتدبہ فاصلے ہیں، دیکھنے سے ہی یہ آبادیاں الگ معلوم ہوتی ہیں، ان کے درمیان انفصال کسی جگہ زراعتی زمینوں کی صورت میں، کہیں وادی کی صورت میں اورکہیں بالائی اور زیریں کی تقسیم کی صورت میں ہے۔
3- یونین کونسل سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق تلی بالا بالغ ونابالغ مردوزن کو ملاکر پچیس سوافراد پر مشتمل ہے اور اگر اس کے ساتھ گانگھٹ اورشنگوڑہ وغیرہ کو بھی شامل کیا جائے تو تعداد سینتیس سو بنتی ہے۔ تاہم ان میں سے کسی ایک بستی میں اتنی آبادی نہیں ہے جس کی بنیاد پر جمعہ جائز ہو۔
4- ان سب بستیوں میں شہر اور بڑے قصبہ والی سہولیات نہیں ہیں، مثلاً بازار، بجلی، پوسٹ آفس، کچہری، قصاب (گوشت ) کی دکان، پیٹرول پمپ ، ویلڈنگ ورکس، ٹائر پنکچر شاپ، فوٹوسٹیٹ کی دکان، ایمبولنس، ایم بی بی ایس ڈاکٹر، لیڈی ڈاکٹر ، ہسپتال، پٹواری نظام، مسافر خانہ، ہوٹل، دودھ، دہی کی دکان اور بیکری بھی موجود نہیں ہے، بلکہ مذکورہ گاؤں والے اپنی بہت سی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے پینتیس کلومیٹر کے فاصلہ پر اوگی بازار جانے کے محتاج ہوتے ہیں، جب کہ عرفاً شہر، قصبہ اور بڑا گاؤں اس علاقے کو کہا جاتا ہے جو اپنی روز مرہ کی حاجت وضروریات پوری کرنے میں کسی دوسرے شہر کا محتاج نہ ہو اور آس پاس کے لوگ اور بستی والے اپنی ضرورت وہاں سے پوری کرتے ہوں۔
5- تلی سیدان کی متفرق آبادیوں کے بارے میں مقامی رہائشیوں کا عرف بھی یہ ہے کہ وہ انہیں الگ الگ دیہات سمجھتے ہیں، مثلًا بعض مقامی علماء سے سوال کیا گیا کہ مثال کے طور پر اگر مشکوٹ کا رہائشی یہ قسم کھائے کہ وہ اپنے گاؤں سے باہر نہیں نکلے گا، اور پھر وہ مشکوٹ سے باہر نکل جائے، مگر تلی سیدان سے باہر نہ نکلے تو کیا اس کی قسم ٹوٹ گئی یا نہیں؟ تو جواب تھاکہ اس کی قسم ٹوٹ گئی۔ اسی طرح شنگوڑہ جو تلی کا علاقہ ہے،سے متعلق یہ سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص قسم کھائے کہ شنگوڑہ میں داخل نہیں ہوگا ،مگر وہ پھر تلی میں داخل ہوجائے، لیکن شنگوڑہ میں داخل نہ ہو تو اس کی قسم ٹوٹے گی یا نہیں؟ تو جواب یہ تھا کہ اس کی قسم نہیں ٹوٹی۔ چوں کہ قسم کا مدار عرف پر ہوتا ہے ؛ لہٰذا یہ ظاہر ی قرینہ ہے کہ مشکوٹ ، شنگوڑہ اور دیگر آبادیاں الگ الگ گاؤں ہیں، تلی سیدان کے محلے نہیں، ورنہ مشکوٹ سے نکلنے پر نہیں،بلکہ تلی سیدان سے نکلنے پر، اور شنگوڑہ میں داخل ہونے پر نہیں بلکہ تلی میں داخل ہونے سے اس کی قسم ٹوٹنی چاہیے تھی۔
مذکورہ بالا نکات کی روشنی میں یہ واضح ہوا کہ ”تلی سیدان“ کی متفرق بستیوں، اسی طرح گانگھٹ اور شوکاٹئی میں کسی بھی جگہ جمعہ کے جائز ہونے کی شرائط نہیں پائی جاتیں، لہذا وہاں جمعہ کا قیام درست نہیں ہے، مذکورہ علاقے میں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کی جائے۔ جس طرح جمعہ قائم ہونے کی شرائط کی موجودگی میں کسی عذر کے بغیر جمعہ کی نماز چھوڑنا گناہ ہے، اسی طرح جہاں جمعہ کی شرائط موجود نہ ہوں، وہاں جمعہ قائم کرنا اور ظہر چھوڑنا گناہ ہے۔
2- جی ہاں! فتویٰ نمبر 144602100116 جامعہ کی دار الافتاء سے جاری ہوا ہے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100002
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن