میرا سوال یہ ہے کہ گزشتہ دنوں میری بہن کا انتقال ہوا ہے، اس کے ترکہ میں کچھ زیورات، پلاٹ،گھر کا سامان اور اسی طرح اس کےمہر میں دیا ہوا ایک 60 گز کا پلاٹ ہے، اب سوال یہ ہے کہ اس کا یہ ترکہ شرعا ًکیسے تقسیم ہوگا اور کن کن ورثاء میں تقسیم ہوگا؟
جبکہ ورثاء میں مرحومہ کا شوہر، ان کی والدہ، ان کے والد اور ان کا ایک بھائی اوردو بہنیں ہیں۔
اور اس کی نمازوں اور روزے کا فدیہ بھی ادا کرنا ہے، کیا وہ ادا کرنا ورثاء پر لازم ہےیا نہیں ؟
صورت مسئولہ میں اگر مرحومہ نے اپنی نمازوں اور روزوں کے فدیے کی وصیت کی تھی ،تو اسےمرحومہ کے ایک تہائی ترکہ سےادا کرنا لازم ہے،اور اگر وصیت نہیں کی تھی ، تو ورثاء پر فدیہ ادا کرنا واجب نہ ہوگا،ہاں البتہ اگر ورثاء از خود باہمی رضامندی سے یا اور کوئی ایک وارث اپنی جانب سے ان کی نماز،روزوں کا فدیہ ادا کر دے تو امید ہے کہ مرحومہ آخرت کی باز پرس سے بچ جا ئے گی، اسی طرح اگر مرحومہ کے تمام ورثاء وراثت کی تقسیم سے قبل مرحومہ کی نمازوں کا فدیہ دینےکے لئے تیار ہوں، تو اس صورت میں مشترکہ ترکہ سے بھی فدیہ دیا جا سکتا ہے۔
اور صورت مسئولہ میں مرحومہ کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ مرحومہ کے حقوق متقدمہ یعنی اگرمرحومہ پر کوئی قرضہ ہے، تو اس کو اس کے ترکہ سے ادا کرنے کے بعد اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہے تو اس کو ما بقیہ ایک تہائی ترکہ سے نافذ کرنے کے بعد باقی کل متروکہ جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کوبارہ حصو ں میں تقسیم کرنے کے بعدتین حصے مرحومہ کےشوہر کو ،دوحصے مرحومہ کی والدہ کواورسات حصے مرحومہ کے والد کو ملیں گے،مرحومہ کے بھائی اور بہنوں کو اس کے ترکہ میں سے حصہ نہیں ملے گا۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت:12
شوہر | والدہ | والد | بھائی | بہن | بہن |
3 | 2 | 7 | م | م | م |
یعنی سو فیصد میں سے25فیصدمرحومہ کے شوہر کو،16.666فیصد مرحومہ کی والدہ کو اور58.333 فیصد مرحومہ کے والد کو ملیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة(وكذا حكم الوتر) والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله) ....(قوله: يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر، بخلاف حق العباد فإن الواجب فيه وصوله إلى مستحقه لا غير، ولهذا لو ظفر به الغريم يأخذه بلا قضاء ولا رضا، ويبرأ من عليه الحق بذلك إمداد.ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى."
(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج:2 ص:72 ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101189
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن