ریل گاڑی میں سفر کے دوران نماز پڑھنا مشکل کام ہوتا ہے ۔ کیونکہ اگر ریل سیدھی چل رہی ہو اور قبلہ بھی سامنے کی طرف ہو تو ڈبے میں جو چھ سیٹیں آمنے سامنے ہوتی ہیں ان کے درمیان میں تو اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ بندہ سجدہ کر سکے البتہ ان کے ساتھ جو گزرنے کی جگہ ہوتی ہے وہاں اگر نماز پڑھنا چاہے تو وہ کھلی جگہ ہوتی ہے پر وہاں ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ جگہ عموما گزرنے کی وجہ سے گندی ہوتی ہے اور دوسرا یہ کہ نماز پڑھنے کی وجہ سے لوگوں کو گزرنے میں تکلیف ہوتی ہے، انہیں انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ ان دو وجہ سے ریل میں نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں ؟
نیز کن کن صورتوں میں ریل میں نماز پڑھنا درست ہے اور کن کن صورتوں میں درست نہیں ؟اس بارے میں بھی تفصیلا رہنمائی فرمائیں۔
واضح رہے کہ نمازوں کو اپنے مقررہ اوقات میں اداکرنا مسلمان پر لازم ہے،جان بوجھ کر، کسی شدید عذر کی بنا پر نماز قضا کرنا سخت گناہِ کبیرہ ہے،اَحادیثِ مبارکہ میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں، البتہ شدید عذر اور مجبوری کی صورت میں اگر نماز کا وقت نکل جائے اور بعد میں اس کو قضا کرلیا جائے تو اس کا گناہ نہیں ہوگا۔
ٹرین میں فرض واجب سنت اور نفل نماز پڑھنا جائز ہے، ٹرین چل رہی ہو یا رکی ہوئی ہو۔ البتہ ٹرین میں نماز ادا کرنے میں بھی استقبالِ قبلہ اور قیام شرط ہے، ان دو شرطوں میں سے کوئی ایک شرط اگر عذر کے بغیر فوت ہوجائے تو فرض اور واجب نماز ادا نہیں ہوگی، ہاں نوافل، قیام کے بغیر بھی ادا ہوجاتی ہیں۔
لہذا اگر ٹرین میں سفر کے دوران یہ اطمینان ہو کہ نماز کے وقت کے اندر ٹرین کسی اسٹیشن پر رکے گی اور وہاں سہولت سے نماز ادا کرنا ممکن ہوگا تو ایسی صورت میں اسٹیشن پر باجماعت نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے؛ تاکہ نماز میں یکسوئی بھی مل سکے اور ٹرین کی وجہ سے ذہنی انتشار بھی نہ ہو اور دوسرے لوگوں کو بھی مشکل نہ ہو۔
اگر نماز کے وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر ٹرین کا رکنا ممکن نہ ہو اور جماعت کا وقت نکل رہا ہو یا ٹرین مختصر وقت کے لیے رکے، جس میں نماز ادا کرنے میں خطرہ ہو کہ ٹرین نکل جائے گی تو ایسی صورت میں سب مسلمانوں کو ٹرین ہی میں مناسب طریقہ سے نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے، یہ سب کا دینی فریضہ ہے۔
چنانچہ جب ایسی صورت پیش آجائے تو مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے،اس لیے اگر راستہ میں رش نہ ہو اور ٹرین میں ساتھ م موجود مسافروں کوکوئی اعتراض نہ ہوتومسلمانوں کو ٹرین ہی میں مناسب طریقہ سےتنہا یا جماعت سے نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہیے، یہ سب کا دینی فریضہ ہے۔البتہ اگر ٹرین میں اس قدر رش ہو کہ قبلہ رو کھڑے ہوکر نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو اور وقت کے اندر کسی اسٹیشن پر اتر کر استقبالِ قبلہ اور قیام کے ساتھ نماز پڑھنا بھی ممکن نہ ہو اور ٹرین مشرق یا مغرب کی سمت جارہی ہو اور راستوں میں کھڑے ہونے سے مسافروں کو پریشانی کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں تو دو سیٹوں کے درمیان قبلہ رو ہو کر قیام اور رکوع کر کے نماز ادا کرلی جائے اور سجدہ کے لیے پچھلی سیٹ پر کرسی پر بیٹھنے کی طرح بیٹھ جائے، یعنی پاؤں نیچے ہی رکھے اور سامنے سیٹ پر سجدہ کرے، اس عذر کی صورت میں سجدے کے لیے گھٹنے زمین یاکسی چیز پر ٹیکنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ اگر ٹرین شمال یا جنوب کی جانب جارہی ہو تو اس صورت میں مذکورہ طریقہ کار کے مطابق نماز ادا کرنا جائز نہ ہوگا۔
اور اگر کسی وجہ سے مذکورہ صورتوں کے مطابق بھی نماز ادا نہ کی جاسکتی ہو اور نماز کا وقت نکل رہا ہو تو فی الحال "تشبہ بالمصلین" (نمازیوں کی مشابہت اختیار) کرلے، یعنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے ہی اشارے سے نماز پڑھ لے،پھر جب گاڑی سے اتر جائے تو فرض اور وتر کی ضرور قضا کرے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(ومنها القيام) وهو فرض في صلاة الفرض والوتر."
(كتاب الصلاة، الباب الرابع، الفصل الأول، 69/1، ط: دارالفکر)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(والمحصور فاقد) الماء والتراب (الطهورين) بأن حبس في مكان نجس ولا يمكنه إخراج تراب مطهر، وكذا العاجز عنهما لمرض (يؤخرها عنده: وقالا: يتشبه) بالمصلين وجوبا، فيركع ويسجدإن وجد مكانا يابسا وإلا يومئ قائما ثم يعيد كالصوم (به يفتى وإليه صح رجوعه) أي الإمام كما في الفيض."
(كتاب الطهارة، باب التيمم، سنن التيمم، 252/1۔253، ط: سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ومن أراد أن يصلي في سفينة تطوعا أو فريضة فعليه أن يستقبل القبلة ولا يجوز له أن يصلي حيثما كان وجهه. كذا في الخلاصة حتى لو دارت السفينة وهو يصلي توجه إلى القبلة حيث دارت. كذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج وإن اشتبهت عليه القبلة وليس بحضرته من يسأله عنها اجتهد وصلى. كذا في الهداية.فإن علم أنه أخطأ بعدما صلى لا يعيدها وإن علم وهو في الصلاة استدار إلى القبلة وبنى عليها. كذا في الزاهدي وإذا كان بحضرته من يسأله عنها وهو من أهل المكان عالم بالقبلة فلا يجوز له التحري. كذا في التبيين.ولو كان بحضرته من يسأله عنها فلم يسأله وتحرى وصلى فإن أصاب القبلة جاز وإلا فلا. كذا في منية المصلي."
(كتاب الصلاة، الباب الثالث، 63/1۔64، ط: دارالفکر)
البحر الرائق میں ہے:
" أن العذر إن کان من قبل الله تعالیٰ لا تجب الإعادة، وإن کان من قبل العبد وجبت الإعادة".
(کتاب الطهارة، باب التیمم، ج:1، ص:149، دار الكتاب الاسلامي)
فتاوی تارتاخانیہ میں ہے:
قال محمد: وإذا استطاع الرجل الخروج من السفينة للصلاة، فأحب له أن يخرج ويصلى على الأرض، وإن صلى فيها جاز، فان صلى فيها قاعدا وهو يقدر على القيام أو الخروج، أجزأه عند أبي حنيفة استحسانا. وفى الطحاوي: وقد أساء، م: ولكن الأفضل أن يقوم أو يخرج، وعندهما لا يجزيه قياسا.....وينبغي للمصلى فيها أن يتوجه للقبلة كيف ما دارت السفينة: سواء كان عند افتتاح الصلاة أو في خلال الصلاة."
(کتاب الصلاۃ، الفصل الرابع والعشرون، 540/2۔541، ط: مکتبۃ زکریا، دیوبند،الھند)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100368
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن