بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ٹرین میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھنا درست ہے؟ / اگر قبلہ کی طرف رخ ممکن نہ ہو، تو کیا کیا جائے؟


سوال

۱: سوال یہ کہ کبھی کبھار ہم سفر کرتے ہیں، تو سفر کے دوران کبھی ٹرین میں اتنا رش ہو جاتا ہے کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی جگہ بالکل نہیں ملتی، اور بعض ٹرینوں میں نماز کے لیے خاص جگہ بھی نہیں ہوتی، اس صورت میں سیٹ پر بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز ہے یا نہیں؟جب کہ ادا نہ کرنے کی صورت میں قضاء ہونا لازمی ہے۔

۲: نیز جس سیٹ پر ہم بیٹھتے ہیں، اس کے پاک یا ناپاک ہونے کا تو ہمیں علم نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ مختلف لوگ اس پر سفر کرتے ہیں، تو آیا اس سیٹ پر بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی صورت میں اگر ہم صرف کوئی پاک کپڑا اس پر بچھائیں، تو یہ کافی ہے یا نہیں؟

۳: نیز ٹرین کے چلنے کی صورت میں قبلہ رخ ہونے کا بھی مسئلہ ہوتا ہے، تو آیا اگر دوران نماز ٹرین  قبلہ کےرخ  سے ہٹ جاتی ہے، تو سیٹ میں اتنی جگہ کی گنجائش نہیں ہوتی کہ بندہ آرام سے دوسری سمت رخ کر لے تو اس کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

۱: بصورتِ مسئولہ اگر ٹرین کا سفر کرنے والا آدمی عام حالات میں کھڑے ہوکر زمین پر رکوع وسجدہ کے ساتھ نماز پڑھنے پر قادر ہے تو ٹرین میں اس شخص کے لیے سیٹ پر بیٹھ کر نماز پڑھنا درست نہیں ہے، بلکہ ایسے آدمی کو کھڑے ہوکر رکوع وسجدہ کے ساتھ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا ضروری ہے۔

تاہم اگر ہجوم وغیرہ کی وجہ سے سیٹ سے اتر کر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے کی استطاعت نہ ہو، اور وقت نکلنے والا ہو، تو پھر سائل کو چاہیے کہ فی الحال ٹرین میں بیٹھے بیٹھے ہی نماز ادا کرلے، البتہ یہ عذر چوں کہ من جانب اللہ اور قدرتی نہیں ہے، لہذا منزل پر اترنے کے بعد نماز کا اعادہ لازم ہوگا۔

۲: اگر سیٹ کے ناپاک ہونے کی کوئی دلیل یا کوئی قرینہ نہیں ہے، اس لیے جب تک اس پر کوئی نجاست نظر نہ آئےتب تک اسے پاک ہی سمجھا جائے گا، اس صورت میں عذر کی وجہ سے سیٹ پر بیٹھ کر بغیر کچھ بچھائے بھی نماز درست ہے، کپڑا بچھا لیا جائے تو مناسب ہے۔

۳: نماز میں قبلہ کی طرف رخ کرنا از ابتداء تا انتہاء نماز کی شرائط میں سے ہے، اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، اس لیے ٹرین میں نماز پڑھتے وقت قبلہ رخ ہوکر کھڑا ہونا ضروری ہے، پھر اگر دورانِ نماز ٹرین کا رخ مڑنے لگے اور اس کا پتالگ جائے، تو اپنا رخ موڑ کر قبلہ کی طرف کرنا ضروری ہے، اور اگر سیٹ پر بیٹھ کر نماز پڑھنے کی وجہ سے قبلہ کی طرف رخ ممکن نہ ہو، تو کم از کم سینہ اور چہرہ ہی قبلہ کی طرف کرلیا جائے، اور اگر ایسا بھی نہ کرپائے، تو اس صورت میں جس طرح ممکن ہو نماز مکمل کرلیں، اور منزل پر پہنچ کر نماز کا اعادہ کرلیں۔

فتح باب العناية بشرح النقاية  میں ہے:

"(صلى) فرضا (قاعدا في فلك: جار بلا عذر) من دوران الرأس، وعدم القدرة على الخروج (صح) عند أبي حنيفة. وقالا: لا يصح إلا من عذر كغير الجاري. وهو الأظهر، لما روى الدارقطني، والحاكم وقال: على شرط مسلم: أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل كيف أصلي في ‌السفينة؟ فقال: صل قائما إلا أن تخاف الغرق. قال الدارقطني: السائل جعفر بن أبي طالب لما هاجر إلى الحبشة. ولأن القيام ركن، فلا يترك إلا بعذر محقق لا موهوم."

(کتاب الصلاۃ، فصل فی صلاۃ المریض، ج: ١، ص: ٣٨٧، ط: دار الأرقم)

رد المحتار علی الدر المختار  میں ہے:

"ومن العجز الحكمي أيضا ما لو خرج بعض الولد وتخاف خروج الوقت تصلي بحيث لا يلحق الولد ضرر؛ وما لو خاف العدو لو صلى قائما أو كان في خباء لا يستطيع أن يقيم صلبه وإن خرج لا يستطيع الصلاة لطين أو مطر، ومن به أدنى علة فخاف إن نزل عن المحمل بقي في الطريق يصلي الفرض في محمله."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج: ٢، ص: ٩٦، ط: سعید)

الفتاوي الهندية  میں ہے:

"ومن خاف العدو إن صلى قائما أو كان في خباء لا يستطيع أن يقيم صلبه فيه وإن خرج لم يستطع أن يصلي من الطين والمطر يصلي قاعدا."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع عشر، ج: ١، ص: ١٣٨، ط: رشيدية)

المبسوط للسرخسي  میں ہے:

"قال: (وإذا لم يستطع السجود لمرض أو جرح أو خوف فهو كله سواء ويومئ)؛ لأنه وسع مثله."

(کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، ج: ١، ص: ٢١٧، ط: دار المعرفۃ)

وفيه أيضا:

"الحدث السماوي ‌العذر المانع من المضي ممن له الحق، وهنا ‌العذر من غير من له الحق وبينهما فرق، فإن المريض يصلي قاعدا ثم لا يعيد إذا برأ، والمقيد يصلي قاعدا ثم تلزمه ‌الإعادة عند إطلاقه."

(کتاب الصلاۃ، باب الحدث في الصلاة، ج: ١، ص: ١٩٦، ط: دار المعرفۃ)

الأشباه والنظائر  میں ہے:

"‌شك في وجود النجس فالأصل بقاء الطهارة؛ ولذا قال محمد رحمه الله: حوض تملأ منه الصغار، والعبيد بالأيدي الدنسة، والجرار الوسخة يجوز الوضوء منه ما لم يعلم به ‌نجاسة؛ ولذا أفتوا بطهارة طين الطرقات، وفي الملتقط: فأرة في الكوز لا يدري أنها كانت في الجرة لا يقضي بفساد الجرة بالشك."

(الفن الأول، ‌‌القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك، ص: ٤٩، ط: دار الكتب العلمية)

فتح القدير  میں ہے:

"(قوله ومن كان خائفا) من سبع أو عدو أو كان في البحر على خشبة يخاف الغرق إن توجه، أو مريضا لا يقدر على التوجه وليس بحضرته من يوجهه يصلي إلى أي جهة قدر."

(كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، ج: ١، ص: ٢٧٠، ط: دار الفكر، بيروت)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"وأما إن كان عجزه بسبب الاشتباه، فإن كان عاجزا لعذر مع العلم بالقبلة فله أن يصلي إلى أي جهة كانت ويسقط عنه الاستقبال، نحو أن يخاف على نفسه من العدو في صلاة الخوف، أو كان بحال لو استقبل القبلة يثب عليه العدو، أو قطاع الطريق، أو السبع، أو كان على لوح من السفينة في البحر لو وجهه إلى القبلة يغرق غالبا، أو كان مريضا لا يمكنه أن يتحول بنفسه إلى القبلة وليس بحضرته من يحوله إليها، ونحو ذلك؛ لأن هذا شرط زائد فيسقط عند العجز."

(کتاب الصلاۃ، فصل شرائط أركان الصلاة، ج: ١، ص: ١١٨، ط: دار الكتب العلمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"العذر إن كان من قبل الله تعالى لا تجب الإعادة وإن كان ‌من ‌قبل ‌العبد وجبت الإعادة."

(كتاب الطهارة، باب التيمم، ج: ١، ص: ١٤٩، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله تعالى أعلم


فتوی نمبر : 144604101672

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں