بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ٹریول ایجنسی والے کا کمیشن لینا کیسا ہے


سوال

میری ٹریول ایجنسی ہے ،بعض ممالک کے  ویزوں  کے لیےہم براہ راست Embessyنہیں جاسکتے ،بلکہ ایجنٹ کے ذریعے ویزہ لگواتے ہیں ، ایجنٹ کےذریعے ویزہ لگوانے میں فیس ڈبل سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے ،اب ایجنٹ ابتداء میں بطورِگارنٹی کے مثلاً5000 روپے لیتا ہے اور وہ کہتا ہےکہ اگر ویزہ نہیں لگا،تو پورے پیسے واپس کروں گا،پھر اگر ویزہ نہ لگے، تو وہ پوری رقم واپس کرتاہے اور جو ویزہ اپلائی کرنے کی فیس ہوتی ہےوہ ایجنٹ اپنی جیب سے بھرتا ہے ،یعنی نقصان کا ضامن ایجنٹ ہو تا ہے ،ا ب سوال یہ ہےکہ اس طرح ایجنٹ کے ذریعہ کام کرانا اور اس سے جو نفع ہوگا وہ میرے لیے لینا درست ہے؟یعنی میرا کمیشن رکھنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  ایجنٹ کے  ذریعے کام کرانادرست ہے ،اور ایجنٹ کے ذریعے سےلوگوں کو ویزہ   فراہم کرانا یہ ایک خدمت ہے اس لیے اس خدمت  پر  متعین کمیشن جورکھاگیا ہو  ،اس کا   لینا شرعاً جائز ہے ۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."

(کتاب الإجارۃ ، مطلب في أجرة الدلال ، ج : 6 ، ص : 63 ،ط : سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144512101498

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں