بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کی تقسیم


سوال

پہلے ہمارے والد کا، پھر ہماری والدہ کا انتقال ہوا۔ ان کے والدین کا انتقال ان کی زندگی میں ہو چکا تھا۔ والدین کی کل اولاد چھ (6) تھی، جن میں تین (3) بیٹے اور تین (3) بیٹیاں شامل تھیں۔

ایک بیٹی کا انتقال والدین کی زندگی میں ہو گیا تھا۔
ایک بیٹے کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے۔ وہ غیر شادی شدہ تھے۔
اب والدین کی وراثت میں چار (4) اولادیں باقی رہ گئی ہیں: دو (2) بیٹے اور دو (2) بیٹیاں۔

1َ۔ والدہ کے زیورات کی تقسیم۔

والدہ کے انتقال سے قبل انہوں نے زبانی طور پر اپنے سونے کے زیورات میں سے کچھ حصہ اپنی بیٹیوں کو دینے کی خواہش ظاہر کی تھی، لیکن اس کا کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں۔ اس معاملے پر ورثاء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے:

(والدہ نے ایک بیٹی کو کچھ سونا دینے کی وصیت کی تھی کیونکہ اسے شادی کے موقع پر زیور نہیں دیا گیا تھا۔)

بڑے بھائی کا مؤقف ہے کہ زیورات شریعت کے مطابق تقسیم کیے جائیں، جبکہ ایک بھائی اور دو بہنیں چاہتے ہیں کہ زیورات برابر تقسیم کیے جائیں اور کل چھ (6) بہن بھائیوں (بشمول وفات پانے والی بہن اور حالیہ وفات پانے والے بھائی) میں تقسیم ہوں۔

2. والد کی جائیداد کی تقسیم۔

ہمارے والد کی ملکیت میں ایک عمارت اور ایک گودام شامل تھے، جنہیں شرعی اصولوں کے مطابق تقسیم کرنا ہے۔

کیا شرعی اصولوں کے مطابق والدین کی زندگی میں وفات پانے والی بیٹی کا کوئی حق بنتا ہے؟
حال ہی میں وفات پانے والے غیر شادی شدہ بھائی کے حصے کا شرعی حکم کیا ہوگا؟
والد کی جائیداد (عمارت اور گودام) کس تناسب سے تقسیم کی جائے گی؟

3. ہبہ (Gift) کا شرعی حکم

اگر والدین اپنی زندگی میں اپنی کوئی جائیداد، زیورات یا کوئی اور چیز اپنی اولاد میں سے کسی کو بطور ہبہ (Gift) دے دیتے ہیں اور اسے تحریری طور پر اس کے نام منتقل کر دیتے ہیں۔

کیا وہ چیز والدین کے انتقال کے بعد وراثت میں شامل ہوگی؟
کیا دوسرے بہن بھائیوں کا اس پر کوئی شرعی حق بنتا ہے؟
کیا وہ جائیداد صرف اس شخص کی ملکیت سمجھی جائے گی جسے والدین نے اپنی زندگی میں تحریری طور پر ہبہ (Gift) کیا تھا؟

جواب

1۔ورثاء کے حق میں وصیت  معتبر نہیں ہے، لہٰذا یہ سونا مرحومہ کے ترکہ میں شامل ہوگا اور تمام ورثاء اپنے شرعی حصے کے بقدر اس میں حق دار ہوں گے۔ البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور باہمی رضامندی سے والدہ کی وصیت پر عمل کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔میراث کے مال میں وارث کا حق شریعت نے متعین کر رکھا ہے، اور اگر کسی شخص نے اپنے کسی وارث کے لیے وصیت کی ہو تو وارث کے حق میں  کی جانے والی  وصیت دیگر  ورثاء کی اجازت پر موقوف ہوتی ہے، اگر دیگر تمام ورثاء بالغ ہوں اور انہوں نے اس وصیت کے نفاذ کی اجازت دے دی تو اسے نافذ کیا جائے گا، اور جس کے لیے وصیت کی گئی ہے اسے اس وصیت میں سے بھی دیا جائے گا اور اس کا شرعی حصہ بھی اسے ملے گا۔ اور اگر بعض ورثاء بالغ ہوں اور بعض نابالغ، اور بالغ ورثاء وصیت کے نفاذ کی اجازت دے دیں تو ان کے حصے کے بقدر نافذ ہوگی، جب کہ نابالغ ورثاء کو ان کا حصہ پورا دیا جائے گا،اگر اجازت دیں تب بھی نابالغ کی اجازت کا اعتبار نہیں ہو گا، اور اگر ورثاء راضی نہ ہوں تو اس صورت میں اس وارث کو صرف اس کا متعین شرعی حصہ ملے گا اور اس وصیت پر عمل نہیں کیا جائے گا۔

2۔صورتِ مسئولہ میں مرحوم والدین کی میراث کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ان کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزوتکفین کا خرچہ نکالنےکے بعد،اگران کے ذمے میں کوئی قرض ہو، اس کوکل مال سےادا کرنے کے بعد،اگرانہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو، اس کومابقیہ مال کے ایک تہائی میں نافذ کرنے کے بعدکل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو6حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے 2 حصے مرحومین کےہر ایک  زندہ بیٹے کواور1حصےمرحومین کی ہرایک زندہ بیٹی کوملے گا۔

مرحومین:6

بیٹابیٹابیٹیبیٹی
2211

یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحومین کی ہر ایک زندہ بیٹے کو 33.333فیصداور  ہر ایک زندہ بیٹی کو16.666فیصد ملے گا۔

مرحومہ بیٹی کا ترکے میں کوئی حصہ نہیں ہے، کیونکہ وہ والدین کی زندگی میں وفات پا گئی تھیں۔ اور مرحوم بیٹے کے حصے کو الگ سے تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ  ورثا ایک ہی  ہیں۔

3۔واضح رہے کہ کسی بھی چیز کو ہبہ (گفٹ) کرنے کے لیے ضروری ہے کہ واہب (ہبہ کرنے والا)، موہوبہ چیز (جس چیز کا ہبہ کیا جا رہا ہے) کو موہوب لہ (جس کو ہبہ کیا جا رہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ اس کا مکمل قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور خود اس چیز سے اپنا تصرف مکمل طور پر ختم کر دے۔

اگر والد نے اپنی زندگی میں کسی چیز کو محض تحریری طور پر ہبہ کیا تھا، لیکن مالکانہ قبضہ اور تصرف نہیں دیا تھا، تو یہ تحفہ مرحوم ہی کی ملکیت شمار ہوگا۔ لہٰذا مرحوم کے تمام ورثا ءاپنے اپنے شرعی حصے کے مطابق اس تحفے کے حق دار ہوں گے۔ لیکن اگر والد نے تحریری طور پر ہبہ کرنے کے ساتھ ساتھ مالکانہ قبضہ اور مکمل تصرف بھی دے دیا تھا، تو اس صورت میں وہ شخص، جسے یہ تحفہ دیا گیا تھا، اس کا مالک ہوگا، اور باقی ورثا کا اس میں کوئی حق نہیں ہوگا۔

المحيط البرهاني میں ہے:

"فالوصية للوارث لا تجوز إلا بإجازة الورثة."

(‌‌كتاب المناسكاک،لفصل السادس عشر: في الوصية بالحج،ج:2،آص:483،ط:دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"الملك لا يثبت في الهبة بالعقد قبل القبض - عندنا - وقال مالك - رحمه الله تعالى - يثبت؛ لأنه عقد تمليك؛ فلا يتوقف ثبوت الملك به على القبض كعقد البيع، بل: أولى؛ لأن هناك الحاجة إلى إثبات الملك من الجانبين فمن جانب واحد أولى، وحجتنا في ذلك ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تجوز الهبة إلا مقبوضة» معناه: لا يثبت الحكم، وهو الملك؛ إذ الجواز ثابت قبل القبض بالاتفاق، والصحابة اتفقوا على هذا؛ فقد ذكر أقاويلهم في الكتاب؛ ولأن هذا عقد تبرع، فلا يثبت الملك فيه بمجرد القبول كالوصية، وتأثيره: أن عقد التبرع ضعيف في نفسه؛ ولهذا لا يتعلق به صفة اللزوم. والملك الثابت للواهب كان قويا؛ فلا يزول بالسبب الضعيف حتى ينضم إليه ما يتأيد به: وهو موته في الوصية؛ لكون الموت منافيا لملكه، وتسليمه في الهبة لإزالة يده عنه بعد إيجاب عقد التمليك لغيره، يوضحه: أن له في ماله ملك العين وملك اليد. فتبرعه بإزالة ملك العين بالهبة لا يوجب استحقاق ما لم يتبرع به عليه - وهو اليد -. ولو أثبتنا الملك للموهوب له قبل التسليم وجب على الواهب تسليمه إليه، وذلك يخالف موضوع التبرع - بخلاف المعاوضات -، والصدقة كالهبة - عندنا - في أنه لا يوجب الملك للمتصدق عليه إلا بالقبض خلافا لمالك رحمه الله."

(کتاب الھبة،ج:12،ص:47،ط:دار المعرفة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية."

(کتاب الھبة،ج:5،ص:690،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144609101279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں