میرے بھائی کا انتقال ہوا،جس کے ورثاء میں صرف ایک بھائی اور بہن ہے ،ہم نے اسی مدرسہ ہذا سے ان کی میراث کی شرعی تقسیم کے طریقہ کار پر فتویٰ لیاتھا،اب ہوا یہ کہ خاندان کی کسی عورت نے مرحوم بھائی کے گھر پر قبضہ کیا تھا جس کے لیے مجھے عدالت جانا پڑا اورآخر کار ہم وہ کیس جیت گئے ،اب پوچھنا یہ کہ عدالتی معاملات میں میرے جو پیسے لگے ہیں، کیا میری بہن بھی اس کے کچھ اخراجات مجھے دے گی؟جبکہ میری بہن کہتی ہے کہ اس قبضے کو چھڑایا جائے اور مجھے میرا حصہ دیا جائے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اس وقت مرحوم بھائی کے کچھ پیسے بینک میں تھے ،جس پر اضافی سود آیا ہے ،اب پوچھنا ہے کہ کیا اس اضافی سود میں بہن کا کچھ حصہ ہے یا نہیں ؟اور اس اضافی سود کے ساتھ اب کیا کرنا چاہیے؟
واضح رہے کہ اس مشترکہ گھر کے قبضے کو چھڑوانے کے لیے عدالتی کاروائی میں سائل کی جو رقم خرچ ہوئی ہے ،اس میں سے سائل کی بہن کا اس (مقبوضہ گھر )میں جتنا شرعی حصہ بنتا ہے اتنی رقم سائل کی بہن پر لازم ہے ،یعنی اگر سائل کی بہن کا اس گھر میں ایک شرعی حصہ ہے تو اس ایک حصے کے بقدر وہ عدالتی کاروائی میں خرچ کی ہوئی رقم سائل کو دے گی ۔
دوسرے سوال کاجوب یہ ہےکہ مذکورہ سودی رقم ورثاء میں سے کسی کے لیے لینا جائز نہیں ، چاہے بھائی ہو یا بہن ،البتہ مرحوم بھائی کی جو اصل رقم بینک میں ہے یعنی سودی رقم کے علاوہ اس اصل رقم کو بھی ترکہ میں شامل کرکے بہن کو اس میں سے حصہ دینا ضروری ہے اور کوشش کی جائے کہ سودی رقم کو بینک سے نہ نکالاجائے، صرف اصل رقم نکالے، اگرسودی رقم بینک سے نکال لی ہے تو اس رقم کو غرباء ومساکین میں ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کردیاجائے ۔اس کی صورت یہ کہ ہر وارث کو اس پوری رقم سے حصہ دیا جائے، پھر ہر ایک اپنے حصے میں آنے والی سودی رقم بغیر نیت ثواب کے صدقہ کرے، البتہ اگر تمام ورثاء کسی ایک وارث کو قبل از تقسیم مذکورہ سودی رقم فقراء میں تقسیم کرنے کی ذمہ داری دیں، پھر وہ تقسیم کرے تو زیادہ بہتر ہے۔
درر الاحکام فی شرح مجلۃالاحکاممیں ہے:
"الخلاصة: إن نفقات الأموال المشتركة تعود على الشركاء بنسبة حصصهم في تلك الأموال حيث إن الغرم بالغنم."
(الكتاب العاشر:الشركات، الباب الخامس في بيان النفقات المشتركة، الفصل الأول في بيان تعمير الأموال المشتركة وبعض مصروفاتها الأخرى، ج:3، ص:310، ط: دار الجيل)
شرح المجلہ میں ہے:
"الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم."
(الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة،ج:3، ص:26، المادۃ: 1073، ط:دارالجیل)
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة ۔وفي الرد (قوله وسنحققه ثمة) أي في كتاب الحظر والإباحة. قال هناك بعد ذكره ما هنا لكن في المجتبى: مات وكسبه حرام فالميراث حلال، ثم رمز وقال: لا نأخذ بهذه الرواية، وهو حرام مطلقا على الورثة فتنبه. اهـ. ح، ومفاده الحرمة وإن لم يعلم أربابه وينبغي تقييده بما إذا كان عين الحرام ليوافق ما نقلناه، إذ لو اختلط بحيث لا يتميز يملكه ملكا خبيثا، لكن لا يحل له التصرف فيه ما لم يؤد بدله كما حققناه قبيل باب زكاة المال فتأمل."
(کتاب البیوع ،باب البیع الفاسد،ج:5،ص:99،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه."
(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100784
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن