تراویح کے بدلے اجرت لینے کی جو شکل کہ 1 یا 2 فرض نماز تراویح پڑھانے والے کیے لیے متعین کرکے اس کی تنخواہ دی جائے، یہ ہے، اس کے علاوہ اور کوئی شکل ہو تو مطلع فرمائیں۔
تراویح کی نماز میں قرآنِ مجید سننے اور سنانے پر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں، لینے اور دینے والے دونوں گناہ گار ہوں گے، البتہ اگر ہدیۃً کچھ دے دیا جائے اور نہ دینے پر شکوہ یا شکایت نہ ہو اور اور نہ ہی مطالبہ ہو اور دینا مشروط یا معروف بھی نہ ہو تو یہ صورت اجرت میں داخل نہ ہوگی۔
نیز اگر قرآن مجید سننے اور سنانے والے کو رمضان المبارک میں تمام نمازوں یا ایک دو نماز کے لیے نائب امام یا مؤذن بنا دیا جائے اور اس کے ذمہ ایک یا دو نمازیں یا اذان سپرد کردی جائیں اور رمضان کے آخر میں طے شدہ تنخواہ دے دی جائے تو جائز ہوگا،الغرض ضرورتاً ایسا کریں ،محض حیلہ مت کریں اور اجرت پہلے طے کر لی جائے،دلوں کا حال اللہ پاک سے مخفی نہیں۔
اسی طرح اگر مسجد کا امام یا مؤذن ہی تراویح میں قرآن سنائیں اور مسجد انتظامیہ رمضان المبارک میں مشاہرہ زیادہ یا دوگنا دے تو یہ صورت بھی اجرت میں داخل نہیں ہوگی۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ"
(كتاب الإجارة، باب الإجارة الفاسدة، مطلب في الإستئجار على الطاعات، ج: 6، ص: 56، ط: دار الفكر بيروت)
کفایت المفتی میں ہے:
"متأخرین فقہائے حنفیہ نے امامت کی اجرت لینے دینے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے، پس اگر امام مذکور سے معاملہ امامت نماز سے متعلق ہوا تھا تو درست تھا، لیکن قرآنِ مجید تراویح میں سنانے کی اجرت لینا دینا جائز نہیں ہے، اگر معاملہ قرآن مجید سنانے کے لیے ہوا تھا تو ناجائز تھا ۔‘‘
(کتاب الصلاۃ، ج: 3، ص: 410، ط: ادارۃ الفاروق کراچی )
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144309100614
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن