بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1446ھ 19 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

تراویح کی نماز شروع ہونے کے بعد آنے والوں کا حکم


سوال

قرآن پاک کی تلاوت کی جا رہی ہو تو خاموشی سے سننے کا حکم دیا گیا ہے، اکثرلوگ دورانِ تراویح مسجد میں ہی اپنی عشاءکی بقیہ نماز ، وتر واجب اور نوافل شروع کر دیتے ہیں ،کیا ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جس شخص نے عشا ء کی نماز نہیں  پڑھی وہ مسجد میں آ کر نماز پڑھتا ہے اور اس دوران مسجد میں تروایح کی جماعت ہو رہی ہو  تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ مسجد میں ایسی جگہ پر نماز پڑھے جہاں پر  آواز نہ  آرہی ہو یا جماعت کی جگہ سے دور ہٹ کر (کسی ستون کی اوٹ میں ، یا مسجد کے برآمدے  ، یا صحن )  اپنی عشاء کی نماز مکمل  کرے ، اور  اس کے بعد تراویح کی جماعت میں شامل ہو جائے،باقی اگر وہ فرض نماز یا وتر پڑھ لے  تو اسے  قرآ ن کریم سے اعراض کرنے والا یا بے ادبی والا نہیں گردانا جائے گا ، کیوں کہ وہ بھی عبادت میں مصروف ہے۔

فتاوی شامی  میں ہے:

"وأشدها كراهة أن يصليها مخالطا للصف مخالفا للجماعة والذي يلي ذلك خلف الصف من غير حائل اهـ ومثله في النهاية والمعراج."

(باب إدراك الفريضة، جلد 2 ص: 56 ط: سعید)

وفیہ ایضا:

''(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً."

(کتاب الصلاة، جلد 1 ص:377 ط:سعید) 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين  مین ہے:

"(وكذا يكره تطوع عند إقامة صلاة مكتوبة) أي إقامة إمام مذهبه ؛ لحديث: «إذا أقيمت الصلاة فلا صلاة إلا المكتوبة» (إلا سنة فجر إن لم يخف فوت جماعتها) ولو بإدراك تشهدها، فإن خاف تركها أصلاً.

(قوله: إلا سنة فجر)؛ لما روى الطحاوي وغيره عن ابن مسعود: أنه دخل المسجد وأقيمت الصلاة فصلى ركعتي الفجر في المسجد إلى أسطوانة، وذلك بمحضر حذيفة وأبي موسى، ومثله عن عمر وأبي الدرداء وابن عباس وابن عمر، كما أسنده الحافظ الطحاوي في شرح الآثار، ومثله عن الحسن ومسروق والشعبي شرح المنية.
(قوله: ولو بإدراك تشهدها) مشى في هذا على ما اعتمده المصنف والشرنبلالي تبعاً للبحر، لكن ضعفه في النهر، واختار ظاهر المذهب من أنه لا يصلي السنة إلا إذا علم أنه يدرك ركعة، وسيأتي في باب إدراك الفريضة، ح. قلت: وسنذكر هناك تقوية ما اعتمده المصنف عن ابن الهمام وغيره."

 (کتاب الصلاۃ ،1/ 377ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100944

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں