(1) کسی مسجد میں کچھ لڑکے آٹھ رکعت تراویح پڑھ کے گھر جاتے ہیں ، چند روز بعد گاؤں والے ان پر بھڑک اٹھتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ عشاء اور تراویح کی نماز مسجد میں پڑھنا ہی چھوڑتے ہیں ایسے میں کیا کرنا چاہیے ؟
(2) اگر عورت حیض کی وجہ سے روزہ نہ رکھ پائے تو کیا حکم ہے ؟
(1)بیس رکعت تراویح ادا کرنا سنتِ مؤکدہ ہےاحادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ آپﷺ کا معمول بھی بیس رکعا ت تراوح پڑھنے کا تھا اسی پر صحابہ اکرم کا اجماع ہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باجماعت بیس رکعت تراویح کا اہتمام مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کروایا تو ان پر کسی نے نکیر نہیں کی، بلکہ تمام صحابہ کرام نے باجماعت تراویح کے اہتمام پر اتفاق کیا، اور اب تک اسی پر تواتر کےساتھ امت کا اجمای چلا آرہاہے ۔
لہذا صورت مسئولہ میں اگر کسی مسجد میں کچھ لوگ آٹھ رکعات تراویح پڑھ ادا کرکے چلے جاتے ہوں تو ایسے افراد کو نرمی اور اچھے انداز میں دلائل کے ساتھ سمجھانا چاہیے تاکہ وہ بیس رکعات کے عادی ہوجا ئیں ، اور اگر تمام تر کوششوں کے باوجود بھی وہ باز نہ آئیں اور آٹھ رکعات ہی پڑھنے پر مصر ہوں تو انہیں نماز سے نہ روکا جائے ، نہ ہی ان کے ساتھ اس قدر الجھاجائے کہ وہ نماز پڑھنا ہی ترک کردیں ۔ان کی سمجھ اور مکمل تراویح کی ادائیگی کی توفیق کے لیے دعا کرتے رہنا چاہیے ، ساتھ ہی انہیں حکمت وبصیرت کے ساتھ سمجھاتے رہنا چاہیے۔
(2)رمضان کے مہینے میں اگر عورت کو حیض آجائے تو اس کے لیے شریعت کا حکم یہ کہ وہ ایام حیض میں نہ روزہ رکھے اور نہ نماز پڑھے، البتہ پاک ہونے کے بعد روزوں کی قضاکرنا اس پر لازم ہے اور نمازیں اس کے لیے معاف ہیں ، نمازوں کی قضا نہیں کرےگی ۔
مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
’’عن ابن عباس رضي الله عنه: أن النبي صلي الله عليه وسلم يصلي في رمضان عشرين ركعةً سوی الوتر‘‘.
(كتاب صلاة التطوع و الإمامة وأبواب متفرقة، كم يصلي في رمضان ركعة ،ج:2،ص:286، ط: طیب اکیدمي )
مرقاةاالمفاتیح میں ہے:
’’لكن أجمع الصحابة علی أن التراويح عشرون ركعةً‘‘.
(كتاب الصلاة، باب قيام شهر رمضان،ج:3،ص:382، ط: رشيدية)
فتح القدیرمیں ہے :
"(والحيض يسقط عن الحائض الصلاة ويحرم عليها الصوم وتقضي الصوم ولا تقضي الصلاة)(قوله والحيض يسقط) يفيد ظاهرا عدم تعلق أصل الوجوب بها، وهذا لأن تعلقه يستتبع فائدته، وهي إما الأداء أو القضاء، والأول منتف لقيام الحدث مع العجز عن رفعه، والثاني كذلك فضلا منه تعالى دفعا للحرج اللازم بإلزام القضاء لتضاعف الصلاة خصوصا فيمن عادتها أكثر، فانتفى الوجوب لانتفاء فائدته لا لعدمأهليتها للخطاب ولذا تعلق بها خطاب الصوم لعدم الحرج، إذ غاية ما تقضي في السنة خمسة عشر يوما (قوله لقول عائشة) لفظ الحديث عن معاذة قالت «سألت عائشة فقلت: ما بال الحائض تقضي الصوم ولا تقضي الصلاة؟ فقالت أحرورية أنت؟ قلت: لست بحرورية ولكنني أسأل، قالت: كان يصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم ولا نؤمر بقضاء الصلاة» متفق عليه".
(كتاب الطهارات،باب الحيض والاستحاضة،ج:1،ص:165،ط:دارالفکر بیروت)
فقط وللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101665
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن