میرے بھائی کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں تین بیٹے اورایک بیٹی تھی، اور بیوی کا انتقال پہلے ہوا تھا ،اور ایک بیٹے کا بھی انتقال والد کی زندگی میں ہوا تھا ،اور مرحوم کے والدین کا انتقا ل پہلے ہواتھا ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ ان کے انتقال کے بعد ان کےکچھ پیسے ملے ہیں ،ان پیسوں کا میں کیا کروں کسی مدرسے یاکسی ادارے میں دوں جب کہ انتقال کے وقت ان کے بیٹے اور بیٹی تدفین تک حاضر نہیں ہوئے اگر شریعت میں بیٹوں اور بیٹی کا کوئی حصہ بنتا ہو ،جبکہ وہ لینےنہیں آتے تو ایسی صورت میں ان پیسوں کا کیا کروں ؟
وضاحت :سائلہ نے ان کے ورثاء کوفون کیا ہے کہ اپنے والدصاحب کا ترکہ لےجاؤ لیکن انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بڑے بھائی سےمشورہ کرتے ہیں، پھر آپ کو بتاتے ہیں ۔
صورت مسئولہ میں سائلہ کے پاس جو رقم اپنے بھائی کے ترکہ کی موجود ہے، اس ترکہ کے رقم کے مستحق مرحوم کے شرعی ورثاء ہیں ،سائلہ کےلیے مذکورہ رقم کو مرحوم کے ورثاء کی اجازت کے بغیر کسی مدرسہ یا کسی ادارے میں دینا جائز نہیں ہے ، اس رقم کو امانت کے طور پر محفوظ رکھا جائے۔
شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:
"كما ان اعيان المتوفي المتروكة عنه مشتركة بين الورثة علي حسب حصصهم."
(كتاب الشركة، الفصل الثالث, ج:1، ص:610، ط:دارالاشاعة العربية)
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة 96) : لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه."
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، ص27، ط:دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602102045
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن