ہمارے والد صاحب کے انتقال کو سات سال ہو چکے ہیں ،والدہ کےعلاوہ ،ہم پانچ بھائی اوردو بہنیں ہیں ،والد صاحب کی وراثت میں ایک مکان ،دو دکانیں اورایک عدد پلاٹ شامل ہیں، اس پلاٹ میں ہمارے علاوہ دو پارٹنرز بھی حصہ دار ہیں ،سوال یہ ہے کہ کہ وراثت کی فوری تقسیم کی جائے یامناسب قیمت لگنے کا انتطار کیا جائے؟والدہ بہنیں اوربھائی وراثت کی فوری تقسیم کےحق میں ہیں ،جب کہ بڑے بھائی مناسب قیمت لگنے تک جائیداد بیچنے کےخلاف ہیں ،شریعت کی رو سے راہ نمائی فرمائیں ۔
اس میں سے ایک بہن اورایک بھائی والد سے حصہ وصول کرچکے ہیں ۔
واضح رہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اس کے ترکہ میں تمام ورثاء کا حق متعلق ہوجاتا ہے، اور ورثاء میں سے ہر ایک اپنے اپنے شرعی حصے کے مطالبہ کا حق رکھتا ہے، لہذااگر ورثاء میں سے کوئی وارث میراث کی تقسیم کا مطالبہ کرےتو اس صورت میں دیگر ورثاء پر میراث کو تقسیم کرنا لازم ہوجاتاہے،نیز میراث کی تقسیم میں بہتر اور مناسب یہی ہے کہ جتنا جلد ہوسکے میراث تقسیم کردی جائے، چاہے تقسیم کرنے کے لیے جائیداد کو بیچنا پڑے،کیوں کہ بلا وجہ میراث کی تقسیم میں تاخیر کرنے سے بہت سی اُلجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں جب بیوہ اور بیٹے اور بیٹیاں ترکہ کی تقسیم کا مطالبہ کر رہے ہیں تو ان کا شرعی حصہ دینا دوسرے ورثاء پر لازم ہے، بہتر قیمت لگنے کے انتظار میں تقسیم میں تاخیر کرنا جائز نہیں ، بلکہ متروکہ زمین کو فروخت کرکے ہر ایک وارث کو اس کا مقررہ حصہ دے دیا جائےیا ورثاء میں کوئی وارث باہمی رضامندی سے ان زمینوں کو موجودہ قیمت پرخرید کر ہر وارث کو اس کےحصے کی رقم دےدےاورجائیداد اپنی طرف کرلے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا طلب أحد الشريكين القسمة وأبى الآخر فأمر القاضي قاسمه ليقسم بينهما."
(كتاب القسمة، ج:5، ص:231، ط:الرشیدیة)
درر الحكام في شرح مجلة الاحكام میں ہے :
"إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر عنها فيقسمه القاضي جبرا أي حكما إذا كان المال المشترك قابلا للقسمة؛ لأن القسمة هي لتكميل المنفعة والتقسيم في المال القابل للقسمة أمر لازم."
(باب في بيان القسمة ، المادة 1130، ج:3، ص:128، ط:دار الجيل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605102160
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن