بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ٹیوب ویل کا پانی آب پاشی کے لیے فروخت کرنے کا حکم


سوال

کسی شخص کا ٹیوب ویل کا پانی آب پاشی کے لیے فروخت کرنے کا شرعاً کیا حکم ہے؟ ایک شخص یہ دلیل دیتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں  یہ کام نہیں ہواتھا، تو یہ حرام ہے۔

جواب

واضح رہے کہ  پانی کو فروخت کرنے کی ممانعت پر  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متفرق احادیث مروی ہیں ،چنانچہ صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاضل(ضرورت سے زائد)پانی فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے"۔

"عن جابر بن عبد الله، قال: «نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فضل الماء»."

(كتاب المساقاة،باب تحريم بيع فضل الماء الذي يكون بالفلاة ويحتاج إليه لرعي الكلأ، وتحريم منع بذله، رقم الحديث:1565، ج:3، ص:1197، ط:دار احياء التراث العربي)

 علمائے کرام مذکورہ حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ یہ حدیث کسی ایسے کنویں کے بارے میں ہے کہ جوکسی میدان یا جنگل وغیرہ میں کسی کا ذاتی اور مملوکہ ہو،اس کا پانی مالک کی ضرورت سے زائد ہو،اس کے آس پاس کوئی دوسرا کنواں موجود نہ ہو،جس سے ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوجائے،نیز پانی کھیتوں کو نہیں بلکہ پیاسے جانوروں کوسیراب کرنے کی ضرورت درپیش ہوتو کنویں کے مالک کے لیے پانی بعوض فروخت کرنا بعض علماء نے مکروہ تحریمی اور بعض نے مکروہ تنزیہی قرار دیا ہے۔جب کہ ٹیوب ویل کا معاملہ کنویں سے مختلف ہے ، کیوں کہ اس کا استعمال اصلاً و ذاتاً کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے ہوتا ہے،نیز ٹیوب ویل کی مشینری چلانے میں بجلی یا پیٹرول وغیرہ کے اخراجات بھی لگتے ہیں، لہذا اگر کسی شخص کے پاس ذاتی جگہ پر ذاتی  ٹیوب ویل ہے،تو ٹیوب ویل کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ اس سے نکلنے والے پانی کا بھی وہ مالک ہے،اور اس کومذکورہ پانی دیگر لوگوں کو  فروخت کرنے اور اس کے عوض رقم وصول کرنے کا حق حاصل ہے،لیکن شرط یہ ہےکہ ٹیوب سے نکالا ہوا پانی پہلے حوض وغیرہ میں جمع کر لیا جائے اس کے بعد اس کو آگے فروخت کر سکتے ہیں۔

باقی  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں ٹیوب ویل وغیرہ سے پانی نکالنے کی صورت موجود نہ ہونے کی بنیاد پراسے حرام قراردینا درست نہیں ہے،کیوں کہ فقہائے کرام کے نزدیک کسی بھی چیز کی حرمت و ممانعت پر جب تک کوئی دلیل شرعی نہ ملے ،وہ مباح کہلائے گی،اسے ناجائز قرار نہیں دیاجائے گا۔

المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج للنووی میں ہے:

"قوله (نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع فضل الماء) وفي رواية عن بيع ضراب الجمل وعن بيع الماء والأرض لتحرث وفي رواية لا يمنع فضل الماء ليمنع به الكلأ وفي رواية لا يباع فضل الماء ليباع به الكلأ أما النهي عن بيع فضل الماء ليمنع بها الكلأ فمعناه أن تكون لإنسان بئر مملوكة له بالفلاة وفيها ماء فاضل عن حاجته ويكون هناك كلأ) ليس عنده ماء إلا هذه فلا يمكن أصحاب المواشي رعيه إلا إذا حصل لهم السقي من هذه البئر فيحرم عليه منع فضل هذا الماء للماشية ويجب بذله لها بلا عوض لأنه إذا منع بذله امتنع الناس من رعي ذلك الكلأ خوفا على مواشيهم من العطش ويكون بمنعه الماء مانعا من رعي الكلأ وأما الرواية الأولى نهى عن بيع فضل الماء فهي محمولة على هذه الثانية التي فيها ليمنع به الكلأ ويحتمل أنه في غيره ويكون نهي تنزيه قال أصحابنا يجب بذل فضل الماء بالفلاة كما ذكرناه بشروط أحدها أن لا يكون ماء آخر يستغنى به والثاني أن يكون البذل لحاجة الماشية لا لسقي الزرع والثالث أن لا يكون مالكه محتاجا إليه واعلم أن المذهب الصحيح أن من تبع في ملكه ماء صار مملوكا له وقال بعض أصحابنا لا يملكه أما إذا أخذ الماء في إناء من الماء المباح فإنه يملكه هذا هو الصواب وقد نقل بعضهم الإجماع عليه وقال بعض أصحابنا لا يملكه بل يكون أخص به وهذا غلط ظاهر."

(كتاب البيوع، باب تحريم بيع فضل الماء الذى يكون بالفلاة ويحتاج إليه، ج:10 ، ص:228،  ط:دار احياء التراث العربي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز بيع الماء في بئره ونهره هكذا في الحاوي وحيلته أن يؤاجر الدلو والرشاء هكذا في محيط السرخسي فإذا أخذه وجعله في جرة أو ما أشبهها من الأوعية فقد أحرزه فصار أحق به فيجوز بيعه والتصرف فيه كالصيد الذي يأخذه كذا في الذخيرة وكذلك ماء المطر يملك بالحيازة كذا في محيط السرخسي.وأما بيع ماء جمعه الإنسان في حوضه ذكر شيخ الإسلام المعروف بخواهر زاده في شرح كتاب الشرب أن الحوض إذا كان مجصصا أو كان الحوض من نحاس أو صفر جاز البيع على كل حال وكأنه جعل صاحب الحوض محرز الماء بجعله في حوضه."

(كتاب البيوع، الباب التاسع، الفصل في بيع الماء والجمد، ج:3، ص:121، ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال الرملي: إن صاحب البئر لا يملك الماء كما قدمه في البحر في كتاب الطهارة في شرح قوله: وانتفاخ حيوان عن الولوالجية فراجعه، وهذا ما دام في البئر، أما إذا أخرجه منها بالاحتيال كما في السواني فلا شك في ملكه له لحيازته له في الكيزان ثم ‌صبه ‌في ‌البرك بعد حيازته. تأمل، ثم حرر الفرق بين ما في البئر وما في الجباب والصهاريج الموضوعة في البيوت لجمع ماء الشتاء بأنها أعدت لإحراز الماء فيملك ما فيها."

(كتاب البيوع، ج:5، ص:67، ط: سعيد)

مبسوط سرخسی میں ہے:

"أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء الإباحة، وأن الحرمة بالنهي عنها شرعا."

(كتاب الاكراه، باب تعدى العامل، ج:24،ص:77، ط:دارالمعرفة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405100951

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں