بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

طلباء کے لیے اسائنمنٹ لکھ کر کے اس پر اجرت لینے کا حکم


سوال

 میں انگلینڈ میں کچھ لڑکوں کے لیے اسائنمنٹ لکھتا ہوں، جو وہاں پر پڑھ رہے ہیں اور ان اسائنمنٹ کی بنا پر وہ لڑکے اپنی ڈگری پوری کرتے ہیں، تو کیا ان سے اس اسائنمنٹ کے عوض پیسے لینا میرے لیے جائز ہے یا نا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی تعلیمی ادارے کی جانب سے طالبِ علم کو دیا گیا وہ کام جس سے اس طالبِ علم کی صلاحیت کا امتحان مقصود ہو، اس کی کارکردگی کا تعین ہو اور اس کی بنیاد پر مستقبل میں اس طالب علم کو سند (Degree) جاری کی جاتی ہو ، ایسا تعلیمی کام طالبِ علم پر بذاتِ خود سرانجام دینا لازم ہوتا ہے۔ورنہ مستقبل میں یہی طالبِ علم نا اہلی کے باوجود اس ڈگری کی بنیاد پر وہ سہولیات حاصل کرے گا جو اصل ڈگری والوں کا حق ہے۔

لہذا ایسے طلبہ کے لیےکسی بھی شخص کو اجرت دے کر اسائنمنٹ (Assignment) ، مقالہ جات ، مضامین لکھوانا جھوٹ ، دھوکا دہی اور دوسروں کی حق تلفی میں تعاون کرنے کے مترادف ہے،جو کہ جائز نہیں ۔البتہ اگر اسائمنٹ،مضامین یا مقالہ طالب علم خود لکھے۔ البتہ اس کی کمپوزنگ ڈیزائیننگ یا اور کوئی ثانوی کام وغیرہ سائل سے کروائے تو اس طرح کام کرنا اور اس پر اجرت لینا سائل کے لیے جائز ہوگا ، اسی طرح اگر سائل اسائنمنٹ کی تیاری میں معاونت  فراہم کرے، تو اس کے لیے اس پر اجرت لینا جائز ہوگا۔

الموافقات للشاطبى میں ہے:

"أن فعل المباح سبب في مضار كثيرة:- ومنها: أنه سبب في الاشتغال عن الواجبات، ووسيلة إِلى الممنوعات؛ ... والثانی : أنا إِذا نظرنا إِلى كونه وسيلة؛ فليس تركه أفضل بإِطلاق, بل هو ثلاثة أقسام:قسم يكون ذريعةإلى منهي عنه؛ فيكون من تلك الجهة مطوب الترك."

(کتاب الاحکام، ج1، ص176، ط:دار ابن عفان)

فتاوی شامی میں ہے :

"و الأجرة إنما تكون ‌في ‌مقابلة ‌العمل."

(کتاب النکاح، باب المهر، ج:3، ص:156، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608100529

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں