اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یہ کہے کہ "تم مجھ سے رہ گئی، میرے بھائی سے نکاح کرلے" تو اس کا کیا حکم ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ الفاظ (تم مجھ سے رہ گئی، میرے بھائی سے نکاح کرلے) کہنے والے شخص نے اگر طلاق کی نیت سے کہے تھے تو ایسی صورت میں مذکورہ شخص کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے، نکاح ختم ہوچکا ہے، آئندہ اگر دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو تجدیدِ نکاح کرکے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، نیز واضح رہے کہ تجدید نکاح کی صورت میں شوہر آئندہ کے لئے دو طلاقوں کا مالک رہے گا اور اگر طلاق کی نیت نہ تھی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ولو قال لها: لا نكاح بيني وبينك أو قال: لم يبق بيني وبينك نكاح، يقع الطلاق إذا نوى."
(ج:1، ص:375، كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الخامس، ط:رشيدية)
فتاوی شامی میں ہے:
"ويؤيده ما في الذخيرة: اذهبي وتزوجي لا يقع إلا بالنية، وإن نوى فهي واحدة بائنة، وإن نوى الثلاث فثلاث."
(ج:3، ص:314، كتاب الطلاق، باب الكنايات، ط:سعيد)
وایضاً:
"(وينكح مبانته بما دون الثلاث في العدة وبعدها بالإجماع)."
(ج:3، ص:409، كتاب الطلاق، باب الرجعة، مطلب في العقد علی المبانة، ط:سعید)
ہدایہ میں ہے:
" وإذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها، لأن حل المحلية باق، لأن زواله معلق بالطلقة الثالثة، فينعدم قبله."
(ج:2، ص:257، كتاب الطلاق، باب الرجعة، ط:دار إحیاء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144308100626
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن