بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ایکس (ٹویٹر) پر لکھی ٹویٹس پر اشتہارات سے کمانے کا حکم


سوال

سوشل میڈیا پر حاصل کی گئی رقم جائز ہے یا ناجائز ہے؟ اسلم ایکس ایپلیکیشن پر جو کہ پہلے ٹویٹر کے نام سے جانی جاتی تھی اس پر ہر پندرہ دنوں میں ایک معقول رقم حاصل کر رہا ہے، جو کہ اکاؤنٹ کی سبسکرپشن (جو کہ ماہانہ 2750 پاکستانی روپے ہوتے ہیں) کے بعد اسلم کی لکھی گئی ٹوئیٹس پر آنے والے اشتہارات اور ویری فائی اکاؤنٹس کے کمنٹس سے اسے دی جاتی ہے اور جو اشتہارات ہوتے ہیں ان میں کچھ تو نارمل ہوتے ہیں جب کہ کچھ لڑکیوں کی تقریباً ننگی تصاویر اور کچھ جوئے کی کمپنیز اور کچھ نشہ آور مشروبات کی کمنپیز کے بھی اشتہار ہوتے ہیں۔ تو کیا اس شکل میں ملنے والی رقم حلال ہے یا حرام ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص اپنے ایکس اکاؤنٹ پر کوئی تحریر ڈالتا ہے اور کمپنی اس پر اشتہارات لگا کر اس کو کچھ رقم ادا کرتی ہے تو یہ رقم لکھنے والے کے حق میں حلال نہیں ہو گی؛ اس لیے کہ اشتہارات میں جائز و ناجائز ہر قسم کے اشہارات ہوتے ہیں اور یہ بات بالکل واضح ہے کہ ٹویٹر کمپنی ان اشتہارات ہی سے حاصل ہونے والی  آمدنی اپنے اکاؤنٹ ہولڈر کو دیتی ہے پھر جب اشتہارات ناجائز ہیں تو ان سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی ناجائز ہو گی۔

باقی جہاں تک دوسری بات ہے کہ ویریفائیڈ اکاؤنٹ اکاؤنٹ ہولڈر کے کمنٹ کرنے سے بھی ٹویٹ کرنے والے کو آمدنی حاصل ہوتی ہے تو اس کے متعلق بعض ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں جو بات سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ اس سلسلہ کی کڑی بھی اشتہار ہی سے جڑتی ہے؛ کیوں کہ اس طرح کے کمنٹ سے براہ راست آمدنی کا کوئی سلسلہ نہیں ہے، بلکہ اس آمدنی کا تعلق بھی اشتہارات ہی سے ہے؛ اس لیے کہ ویریفائیڈ اکاؤنٹ ہولڈر جب کمنٹ کرتا ہے تو اس کے کمنٹ سے یہ اثر پڑتا ہے کہ اس ٹویٹ کے دیکھنے والوں میں اضافہ ہوتا ہے،  جس کی وجہ سے ٹویٹ اور اشتہار دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے، لہذا یہاں بھی ٹویٹ کرنے والے  کو اشتہارات ہی کی آمدنی سے کچھ حصہ دیا جاتا ہے اور پہلے بیان ہوا کہ وہ حلال نہیں۔

اور اگر اس کا طریقہ کار کچھ مختلف ہو تو وہ تفصیل سے سوال میں لکھا جائے کہ اس صورت میں آمدنی کے حصول کا کیا طریقہ ہے؟ اور کمپنی کس مد سے یہ آمدنی اکاؤنٹ ہولڈر کو دیتی ہے؟  اس کے بعد تحقیقی جواب دیا جائے گا ان شاء اللہ۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"ولا تجوز الإجارة على شيء من ‌الغناء والنوح والمزامير والطبل وشيء من اللهو وعلى هذا الحداء وقراءة الشعر وغيره ولا أجر في ذلك وهذا كله قول أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد رحمهم الله تعالى. كذا في غاية البيان."

(کتاب الاجارۃ ، الباب السادس عشر ، المجلد : 4 ، الصفحة : 449 ، الناشر : دار الفکر)

فتاوی شامی ميں ہے:

"(لا تصح الإجارة لعسب ‌التيس) وهو نزوه على الإناث (و) لا (لأجل المعاصي مثل الغناء والنوح والملاهي)."

(کتاب الاجارۃ ، باب الاجارۃ الفاسدۃ ، المجلد : 6 ، الصفحة : 55 ،  الناشر : سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144602101687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں