بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار پر سونے کی خریدوفروخت


سوال

  میں اپنا سونا اپنے ہی گھر والوں کو بیچنا چاہ رہا ہوں کیو ں کہ میں چاہتا ہوں کہ باہر  بیچنے سے اچھا اپنے گھر والوں کو ہی بیچ دوں ، مگر میرے گھر والوں کی اس وقت اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں ہی پوری پیمنٹ کر سکیں  ، تو وہ اُدھار پہ اور وہ بھی قسطوں پہ ادائیگی کرنا ان کے لیے ممکن ہوگا ، تو اس میں کیا شرائط ہوں گی ،دینی اعتبار سے کیا یہ طریقہ کار اُدھار پر سونا بیچنا اور خریدنا صحیح ہے یا نہیں ؟ اور اسی میں ہی اگر قسطوں میں اگر ہو تو کیا صورت ہوگی ، کہ جائز ہوگا یا ناجائز ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ سونے کے زیورات  سونے یانقدرقم کے بدلے میں بیچنابیع صرف کہلاتی ہے،اور بیع صرف کےجائز ہونے کے لیے شرط یہ ہےکہ دونوں طرف سے معاملہ نقد ہو،یعنی ایک ہاتھ سے سونے کے زیورات دے جائیں اور دوسرے ہاتھ سے سونا یا نقدرقم لی جائے، کسی بھی جانب  سے ادھار، رباکے دائرے میں آنےکی وجہ سے ناجائزوحرام ہے  ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کاگھروالوں کو سوناادھار بیچنااور قسط وار خریدناناجائزوحرام ہے۔

جائز صور ت یہ ہوسکتی ہے کہ سونا گھر والوں کو قرض دے دیا جائے پھر سونے  کے بدلے ان سے  نقدی میں اپنا قرض وصول کرلیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(هو) لغة الزيادة. وشرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) ۔"

(کتاب البیوع ،باب الصرف، 257/5، ط، دار الفکر)

فتاوی مفتی محمود ؒمیں ہے:

"سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ آج مثلاً سونے کا حاضر بھاؤ ۶۰۰ روپے فی تولہ ہے، ایک سنار ہم سے ۱۰ تولہ سونا مانگتاہے، ایک ماہ کے ادھار پر ہم ا س سے کہتے ہیں کہ میں تو ۶۴۰ روپے فی تولہ دوں گا۔ وہ کہتا ہے کہ دے دو، رقم ایک ماہ میں ادا کردوں گا۔ ہم اس کو سونا دیتے ہیں تو عرض یہ ہے کہ آج کے بھاؤ سے ہمیں ۱۰ تولہ سونے میں ۴۰۰ روپے بچت ہوتی ہے، کیا یہ ہمارے لیے جائز ہے یا نہیں؟
جواب:یہ تو بیع صرف ہے، اس میں اُدھار جائز نہیں۔بیع سابق صحیح نہیں ہے، فاسد ہے، اس میں جو نفع ہوا ہے‘ خیرات کردیا جائے۔"

(کتاب البیوع ،401/8،ط، جمعیۃ پبلیکیشنز، لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510101109

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں