بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خریدنے میں زیادہ قیمت ادا کرنا


سوال

اگر ہم دکان دار سے کھاد ادھار پر لیتے ہیں تو دکاندار کہتا ہے کہ کھاد کا نقد ریٹ دو ہزار ہے اور ادھار پراس کا ریٹ کچھ زیادہ ہے تو کیا ادھار پر لینا گناہ ہے جبکہ ادھار لینا مجبوری ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اشیاء کی   خرید و فروخت میں اصل حکم نقد خریداری کی طرح ادھار پر خریدنا بھی جائز ہے ،اسی بناء پر نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق رکھنے میں بھی شرعا کوئی حرج نہیں ہے،بشرط یہ ہے کہ سودا کرتے وقت پیسوں کی ادائیگی کا وقت کے ساتھ  کسی ایک قیمت  کو(نقد وادھار کے  اعتبار سے) بھی متعین کر دیاجائے،لہذااگر سودا کرتے وقت نقد ہو یا ادھار کسی ایک متعین قیمت پر سودا ہوجائے  اور ادائیگی کا وقت بھی طے ہوجائے تو خریدار پر  اسی متعین مدت پر طے شدہ  قیمت ادا کرنا لازم ہوگی،سودے کےبعد خریدار چاہے جلد ادائیگی کرے یا  کسی مجبوری کی  وجہ سے تاخیر سے پیسے ادا کرے ،اُس پر وہی متعین قیمت ادا کرنا ہی  لازم ہوگی۔

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"وإذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم ولنهي النبي - صلى الله عليه وسلم - عن شرطين في بيع وهذا هو تفسير الشرطين في بيع ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

(کتاب البیوع،باب البیوع الفاسدۃ،ج13،ص8،ط؛دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں