اگر بندے کے پاس کل مال ادھار ہے،تو زکات اس پر فرض ہے یا نہیں؟
قرض لی ہوئی رقم جس کی ادائیگی ذمہ میں واجب ہوتی ہے دیگر قابلِ زکاۃ اموال سے منہا ہوتی ہے، یعنی مثلاً اگر کوئی شخص اپنی ملکیت کے تمام قابلِ زکاۃ اثاثوں کے ساتھ تمام تجارتی مال کے قابلِ فروخت سامان کا جائزہ لے کر مارکیٹ میں قیمتِ فروخت کے حساب سے اس کی مالیت کی تعیین کرے ، اور اس میں سے اپنے اوپر واجب الادا اخراجات مثلاً جو ادائیگیاں باقی ہیں یا دیگر قرض وغیرہ ہیں ان کو منہا (مائنس) کرے، تو اگر اس کے بعد بھی اس کے پاس اتنی مالیت بچے جو نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی رقم )کے بقدر ہو تو اس کا چالیسواں حصہ یعنی ڈھائی فیصد زکاۃ ادا کرنا ہوگا۔اگر اتنی رقم نہیں بچے بلکہ اس کا قرضہ زیادہ ہو تو پھر اس پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144109200994
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن