بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار پر بیچی گئی گاڑی کسی اور کو نقد پر بیچنے کا حکم


سوال

ہم نے ایک گاڑی ٹائم پر بیچی ہے،  دوسرے بندے کاہمارے اوپر قرضہ ہے ، جس کا ہمارے اوپر قرضہ ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ  جو گاڑی آپ نے ٹائم پر ساٹھ لاکھ کی بیچی ہے، یہ مجھے کیش میں پچاس لاکھ کی دے دو ، میں اپنے پیسے اس میں انویسٹ کرتا ہوں،کیا اس طرح کرناشرعاً درست ہے؟

جواب

واضح رہےکہ    بیع ایجاب اور قبول کے ساتھ مکمل ہو جاتی ہے،خواہ وہ نقد  پرہو یا ادھار پر ،اور بیع کے مکمل ہونے کے بعد  مبیع یعنی بیچی گئی چیز بائع (بیچنےوالا)کی ملکیت سے نکل کرمشتری یعنی خریدار  کی ملکیت میں داخل ہو جاتی ہے،اس کے بعد بائع کو مبیع میں تصرف کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں بائع  نے جو گاڑی ٹائم پر بیچی ہے،وہ اس کی ملکیت سے نکل گئی ہے،اور مشتری اس کا مالک بن گیا ہے،لہذا وہ مشتری کی اجازت کے بغیر اس میں کسی قسم کا تصرف نہیں کر سکتا،نہ کسی اور پر بیچ سکتا ہے،اور نہ  مشتری سے  واپس لے سکتا ہے،لہذا  آپ کے قرض خواہ کا یہ مطالبہ کرنا کہ آپ نے  جو گاڑی کسی اور کو  ٹائم پر (ادھار پر)ساٹھ لاکھ میں بیچی ہے،اسےاس  قرض خواہ  کوپچاس لاکھ نقد میں بیچ دیں،اور یہ پھر قسطوں میں ساٹھ لاکھ وصول کرلے شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔

کنز الدقائق میں ہے:

"ويلزم بإيجابٍ وقبولٍ وبتعاطٍ،وصحّ بثمنٍ حالٍّ وبأجلٍ معلومٍ".

(کتاب البیوع، ص:406، ط:دار البشائر الإسلامية، دار السراج)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم۔۔۔۔۔وأما شرط اللزوم فخلوه عن الخيارات الأربعة المشهورة وغيرها هكذا في البحر الرائق.

 وأما حكمه فثبوت الملك في المبيع للمشتري وفي الثمن للبائع إذا كان البيع باتا".

(کتاب البیوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:2، ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن".

(کتاب البیوع، ج:4، ص:506، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144510102209

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں