بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

اجرت پر مضامین لکھنا اور کمائی کا حکم


سوال

 میں انٹرنیٹ پر ایک ویب سائٹ Livingstone Research پرپارٹ ٹائم کام کرتا ہوں۔یہ ویب سائٹ UK based ہے جوکہ academic writing services مہیا کرتی ہے۔ ہمارے اور کلائنٹ کے بیچ کا کام کرتی ہے اور ہم ڈاریکٹلی کلائنٹ کے ساتھ کسی ذریعے سے رابطہ نہیں کر سکتے۔

ہمارا کام یہ ہے کہ ویب سائٹ کی ٹائم لائن پہ آرڈرز شو ہوتے ہیں۔اور ان کی مکمل تفصیل بھی موجود ہوتی ہے۔ یہ آرڈرز مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں جو کہ مختلف مضامین مثلًا سائنس، فائنانس، ریاضی، کیمسٹری، فزکس، انجینئرنگ، سوشیالوجی اور اس طرح کے تقریبًا تمام مضامین شامل ہیں۔ ہر آرڈر مختلف طرح کا ہوتا ہے۔ کبھی مضمون لکھ کے دینا ہوتا ہے۔ کبھی کوئی کووز کرنا ہوتا ہے۔ کبھی سوالات کے جوابات دینے ہوتے ہیں،کبھی کسی سبجیکٹ کا پراجیکٹ کرنا ہوتا ہے، ان آرڈرز کی مخصوص ڈیڈ لائن ہوتی ہے، اور آرڈر کی قیمت بھی کمپنی کی طرف سے پہلے سے طے ہوتی ہے،ڈیڈ لائن کے اندر اس آرڈر کو اچھے طریقے سےمکمل کرنے پہ کمپنی ہمیں ڈالرز میں سیلری دیتی ہے۔ اچھے آرڈر کے لیے اس کی مائیکرسافٹ ورڈ فائل میں مخصوص فارمیٹنگ مثلا MLA, APA میں لکھنا، 10 فیصد سے کم پلیجیریزم، اور اچھا اور معیاری کونٹینٹ لکھنا۔

اگر ہم ان تینوں شرائط میں سے کسی پہ پورا نہیں اترتے اور کلائنٹ مطمئن نہیں ہوتا تو کمپنی ہمیں جرمانہ کرتی ہے اور ایک ہی وقت میں اگر 4 وارننگ آ جائیں تو اکاؤنٹ بند کردیا جاتا ہے، اگر اچھا کام کیا جاۓ تو سٹارز                ملتے ہیں اور ریٹنگ بہتر ہوتی ہے اور بونس ملتا ہے۔

عمومًا فائیور پہ فری لانسر ڈائریکٹ کلائنٹ کے ساتھ رابطے میں ہوتا ہے اور آرڈر کی بنیاد پہ بارگیننگ ہوتی ہے۔ اور قیمت کا تعین ہوتا ہے۔ لیکن اس ویب سائٹ پہ ایسا نہیں ہے۔ ہمیں کمپنی مختلف ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد ہائر کرتی ہے اور ہمیں کمپنی کی پالیسیز کے مطابق کلائنٹ کے لیے اچھا کام کرنا ہوتا ہے۔

اس ساری تفصیل اور ویب سائٹ کے کام کرنے کے طریقہ کار بیان کرنے کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ ایسی ویب سائٹ پہ کام کرنا جس پہ طلبہ، پروفیشنلز اپنا پروجیکٹ، اسائنمنٹ ، کوؤز، ریسرچ پیپر لکھواتے ہیں اور وہ لکھ کے دینے کے عوض ہمیں کمپنی پیمنٹ کرتی ہے تو کیا یہ ذریعہ آمدن میرے لیے شرعًا جائز اور میری کمائی  حلال ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر سائل کو اس بات کا علم ہوکہ آپ کو لکھنے کیلئے دیئے جانے والے مضامین طلبہ یا ان حضرات کے ہیں، جن پر ان مضامین کو خود تحریر کرنا لازم تھا، مگر وہ لوگ آپ کے ذریعے مضامین لکھوا کر  اپنی طرف منسوب کرکے پیش کریں گے، تو ایسی ویب سائٹ پر لوگوں کا کام کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے، نیز ایسی صورت میں اس سے حاصل ہونے والی کمائی بھی کراہت سے خالی نہ ہوگی؛ کیوں کہ  جائز مضمون پر مشتمل تحریر/مقالہ لکھنا اگرچہ گناہ نہیں، بلکہ مباح عمل ہے٬ جس کی اجرت حلال ہے، لیکن یہاں دھوکا  دہی کے کام میں جان بوجھ کر معاونت کی وجہ سے اس میں کراہت آجائے گی۔ تاہم اگر آپ کو اس بات  کا علم نہ ہو کہ مضمون لکھوانے والا کس مقصد  کے لیے لکھوا رہا ہے، تو آپ  کے لیے جائز مضامین پر مشتمل تحریر/مقالہ لکھنا جائز  ہوگا، اور اس کی اجرت بھی حلال  ہوگی۔

قرآن مجید میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"﴿وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ﴾." (المائدة: 2)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وعلى هذا يخرج الاستئجار على المعاصي أنه لا يصح لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا كاستئجار الإنسان للعب واللهو، وكاستئجار المغنية، والنائحة للغناء، والنوح بخلاف الاستئجار ‌لكتابة ‌الغناء والنوح أنه جائز؛ لأن الممنوع عنه نفس الغناء، والنوح لا كتابتهما."

(كتاب الإجارة، ج:4، ص:189، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں